غم ترا غم بھی ہے تسکین کا پیغام بھی ہے

غم ترا غم بھی ہے تسکین کا پیغام بھی ہے
ہے اگر عشق میں تکلیف تو آرام بھی ہے


آمد و رفت کا ہے کھیل تماشا سارا
زندگی بھی ہے نفس موت کا پیغام بھی ہے


یاد محدود نہیں روزہ نمازوں پہ فقط
دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے


یہ بتاتے ہیں لفافے پہ ہمارے آنسو
جذبۂ عشق میں ڈوبا ہوا پیغام بھی ہے


نام بدلا ہے صدفؔ حسب ضرورت میں نے
نام معبود خدا ہی کی طرح رام بھی ہے