حقیقت نہاں تھی عیاں ہو گئی ہے
حقیقت نہاں تھی عیاں ہو گئی ہے
امیدوں کی دنیا جواں ہو گئی ہے
تری جستجو میں یہ مجبور ہستی
مٹی اس طرح بے نشاں ہو گئی ہے
جہاں میں نے سجدے میں سر کو جھکایا
وہ منزل ترا آستاں ہو گئی ہے
گلوں نے چرائی ہوا نے اڑائی
زباں زد مری داستاں ہو گئی ہے
صدفؔ میں کہوں کیا کسی سے کروں کیا
مری ہی نظر بد گماں ہو گئی ہے