دے کے دل اپنا کسی قلب میں گھر پیدا کر
دے کے دل اپنا کسی قلب میں گھر پیدا کر
بے زباں بن کے خموشی میں اثر پیدا کر
آتش عشق میں انداز شرر پیدا کر
غم کے تاریک اندھیروں میں سحر پیدا کر
آرزو یار کے جلووں کی اگر پیدا کر
تاب جلوہ ہو جسے ایسی نظر پیدا کر
وقت برباد نہ کر زاد سفر پیدا کر
دور آغاز میں انجام کا ڈر پیدا کر
بحر ہستی میں صدفؔ بن کے گہر پیدا کر
درد دل درد جگر درد بشر پیدا کر