ہم روز جو لڑتے ہیں تماشا نہیں ہوتا

ہم روز جو لڑتے ہیں تماشا نہیں ہوتا
معمول کا جھگڑا کوئی جھگڑا نہیں ہوتا


میں بچے کھلاتا ہوں تو وہ جاتے ہیں پکچر
یہ روز کا راتب ہے جو ناغہ نہیں ہوتا


لیڈر کی یہ پہچان کہ وہ پھولتا جائے
شاعر کی یہ پہچان کہ موٹا نہیں ہوتا


ہر ایک ملازم کا ہے یہ حال کہ گھر میں
چاول نہیں ہوتے کبھی آٹا نہیں ہوتا


یہ سوچ کہ لوٹاتا نہیں قرض کسی کا
احباب سے مانگا ہوا قرضا نہیں ہوتا


گر لاٹری اٹھ جائے تو کیا ٹھاٹ سے گزرے
یہ خواب ہے اندھوں کا جو پورا نہیں ہوتا


ہر چیز کی قلت ہے رحیمؔ آج وطن میں
افسوس کہ کنبہ کوئی چھوٹا نہیں ہوتا