قرض لے کر ادا نہیں کرتے
قرض لے کر ادا نہیں کرتے
شاعر اس کے سوا نہیں کرتے
ہم کسی کا بھلا نہیں کرتے
کام بے فائدہ نہیں کرتے
ایک شادی پہ اکتفا کر لو
یہ خطا بارہا نہیں کرتے
لاکھ وعدہ کریں گے وہ ہم سے
کوئی وعدہ وفا نہیں کرتے
سوکھے پیڑوں کی طرح یہ لیڈر
ہم پہ سایہ ذرا نہیں کرتے
آسماں کو زمین لکھتے ہیں
لوگ جدت میں کیا نہیں کرتے
پیروی کیا کریں گے غالبؔ کی
مفت کی جب پیا نہیں کرتے
ان کو شاعر نہیں کہوں گا میں
جو کسی سے جلا نہیں کرتے
بال بلی کے مونڈتے ہیں رحیمؔ
لوگ فرقت میں کیا نہیں کرتے