جب بھی بیگم کی دید ہوتی ہے

جب بھی بیگم کی دید ہوتی ہے
ایک زحمت مزید ہوتی ہے


مسکراتے ہیں آج کیوں مرشد
کوئی لڑکی مرید ہوتی ہے


یاد آتے ہیں ہم بھی سالوں کو
جب ضرورت شدید ہوتی ہے


چاند سورج زمیں سے اگتے ہیں
شاعری جب جدید ہوتی ہے


سچ ہی کہتے ہیں گھر جنوائی کی
زندگی زر خرید ہوتی ہے


اب بچائے خدا بلاؤں سے
ان سے گفت و شنید ہوتی ہے


دوستو زن زدہ غریبوں کی
کیا کہوں کیسے عید ہوتی ہے


لڑ کے ملنے سے مل کے لڑنے سے
حسرت دل مزید ہوتی ہے


ہے حماقت رحیمؔ شادی بھی
اس سے مٹی پلید ہوتی ہے