Rasheed Rampuri

رشید رامپوری

  • 1892 - 1964

رشید رامپوری کی غزل

    اے دل اس کا تجھے انداز سخن یاد نہیں

    اے دل اس کا تجھے انداز سخن یاد نہیں وہ پھری آنکھ وہ ماتھے کی شکن یاد نہیں قید صیاد میں جب سے ہوں چمن یاد نہیں دوست ہیں اہل قفس اہل وطن یاد نہیں ہجر میں دل کے ہمیں داغ کہن یاد نہیں مسکراتے ہوئے پھولوں کا چمن یاد نہیں وہ خنک چاندنی راتیں وہ فضا آپ اور میں اور وعدے وہ لب گنگ و جمن ...

    مزید پڑھیے

    جس کی گرہ میں مال نہیں ہے

    جس کی گرہ میں مال نہیں ہے غم پرسان حال نہیں ہے سبزہ ہو یا دل تیرے قدم سے کون ہے جو پامال نہیں ہے ان کے کرم کا رستہ دیکھیں اتنا استقلال نہیں ہے آج غریبوں کا دنیا میں کوئی شریک حال نہیں ہے اس کا بھی کوئی رنگ سخن ہے جس کی کوئی ٹکسال نہیں ہے خوش ہیں رشیدؔ اتنا دنیا میں کیا خوف ...

    مزید پڑھیے

    اٹھ کر ترے در سے کہیں جانے کے نہیں ہم

    اٹھ کر ترے در سے کہیں جانے کے نہیں ہم محتاج کسی اور ٹھکانے کے نہیں ہم ٹھہرا ہے عیادت پہ سفر ملک عدم کا آنے کے نہیں آپ تو جانے کے نہیں ہم جو تم نے لگائی ہے وہ ہے قدر کے قابل اس آگ کو اشکوں سے بجھانے کے نہیں ہم لو آؤ سنو ہم سے غم ہجر کی حالت گزری ہے جو ہم پر وہ چھپانے کے نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مرے گھر کے لوگ جو گھر مجھی کو سپرد کر کے چلے گئے

    مرے گھر کے لوگ جو گھر مجھی کو سپرد کر کے چلے گئے مرا بار غم نہ اٹھا سکے تو مجھی پہ دھر کے چلے گئے کبھی گھر ہمارے وہ آ گئے تو لکھا نصیب کا دیکھیے کوئی بات ان سے نہ ہو سکی وہ ذرا ٹھہر کے چلے گئے جہاں لطف سیر نہ پا سکے نہ جہاں کا حال بتا سکے جہاں زندگی میں نہ جا سکے وہاں لوگ مر کے چلے ...

    مزید پڑھیے

    کھلا یہ ان کے انداز بیاں سے

    کھلا یہ ان کے انداز بیاں سے مروت اٹھ گئی سارے جہاں سے مجھے وہ رنج دیں یا رحم کھائیں کروں ان کی شکایت کس زباں سے رہ محبوب میں اللہ رے شوق قدم رکھتا ہوں آگے کارواں سے جہاں میں ہے وہی تقدیر والا سلامت جو رہا تیری زباں سے کسی کا پاس رسوائی کہاں تک گلا گھٹنے لگا ضبط فغاں سے عدم کا ...

    مزید پڑھیے

    تجھ سے وحشت میں بھی غافل کب ترا دیوانہ تھا

    تجھ سے وحشت میں بھی غافل کب ترا دیوانہ تھا دل میں تیری یاد تھی لب پر ترا افسانہ تھا رات جو زاہد شریک جلسۂ رندانہ تھا تھی صراحی خندہ لب گردش میں ہر پیمانہ تھا مے کدہ بے جام چشم یار ماتم خانہ تھا دیدۂ پرخوں مری آنکھوں میں ہر پیمانہ تھا ہو گیا تھا مجھ کو جس دن سے اسیری کا خیال میری ...

    مزید پڑھیے

    کہتے ہو مجھے بے ادب خیر میں بے ادب سہی

    کہتے ہو مجھے بے ادب خیر میں بے ادب سہی تم سے شکایت ستم جب نہ سہی تو اب سہی بزم عزائے دوست میں غم نہ سہی طرب سہی ہنس نہ سکو جو کھل کے تم تو خندۂ زیر لب سہی جتنی ہوں مہربانیاں رکھیے وہ غیر کے لیے اور ستم ہوں جس قدر میرے لیے وہ سب سہی مجھ پر اگر کرم نہیں اس کا مجھے الم نہیں کوئی نہ ...

    مزید پڑھیے

    اللہ رے حوصلہ مرے قلب دو نیم کا

    اللہ رے حوصلہ مرے قلب دو نیم کا جس نے سبق پڑھا ہے الف لام میم کا اٹھا نہ بار جلوۂ ذات قدیم کا اتنا تھا ظرف دعوی چشم کلیم کا بخشش خدا کی ہے تو شفاعت رسول کی رکھتا ہوں درمیان کریم و رحیم کا عاصی کو اپنے دامن رحمت میں دی جگہ اللہ رے کرم مرے رب کریم کا عاصی سہی ذلیل سہی پر خطا ...

    مزید پڑھیے

    مفت دشنام یار سنتے ہیں

    مفت دشنام یار سنتے ہیں ایک کہہ کر ہزار سنتے ہیں تم حمایت کرو نہ غیروں کی چار کہتے ہیں چار سنتے ہیں ہم فدائے چمن قفس میں بھی ذکر فصل بہار سنتے ہیں کچھ تو ہے بات جو ترے منہ سے سخن ناگوار سنتے ہیں آپ اور آئیں اپنے وعدے پر ایسے فقرے ہزار سنتے ہیں اس سے ملنے کو دل تڑپتا ہے ہم جسے بے ...

    مزید پڑھیے

    ان کے گھر آنا نہیں جانا نہیں

    ان کے گھر آنا نہیں جانا نہیں مدتیں گزریں وہ یارانا نہیں نزع میں وہ یہ تسلی دے گئے موت بھی آئے تو گھبرانا نہیں کیا رہے گا عشق میں ثابت قدم دشت کوئی غیر نے چھانا نہیں بے بلائے جاؤں اس محفل میں کیوں گالیاں ناحق مجھے کھانا نہیں میں وہی ہوں جس کو کہتے تھے رشیدؔ تم نے اب تک مجھ کو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2