Rasheed Rampuri

رشید رامپوری

  • 1892 - 1964

رشید رامپوری کی غزل

    دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں

    دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں نہ گئیں آہ و زاریاں نہ گئیں دن کو چھوٹا نہ انتظار ان کا شب کو اختر شماریاں نہ گئیں نہ چھپا گریۂ شب فرقت رخ سے اشکوں کی دھاریاں نہ گئیں آ گئے وہ بھی وعدے پر لیکن آہ کی شعلہ باریاں نہ گئیں تنگ آ کر وہ چل دیے گھر کو جب مری اشک باریاں نہ گئیں اس نے خط پھاڑ ...

    مزید پڑھیے

    دل کی کیا قدر ہو مہماں کبھی آئے نہ گئے

    دل کی کیا قدر ہو مہماں کبھی آئے نہ گئے اس مکاں میں ترے پیکاں کبھی آئے نہ گئے آپ عشق گل و بلبل کی روش کیا جانیں اندرون چمنستاں کبھی آئے نہ گئے ہم نے گھر اپنا ہی وحشت میں بیاباں سمجھا بھول کر سوئے بیاباں کبھی آئے نہ گئے پھر بھی کرتے ہیں بیاں ملک عدم کا احوال جیتے جی حضرت انساں ...

    مزید پڑھیے

    جب نظر اس نے ملائی ہوگی

    جب نظر اس نے ملائی ہوگی لب پہ عالم کے دہائی ہوگی ان کی بے وجہ برائی ہوگی منہ سے نکلی تو پرائی ہوگی وہ مجھے دیکھنے آتے ہم دم تو نے کچھ بات بنائی ہوگی مانگتا ہوں جو دعائے وحشت حسرت آبلہ پائی ہوگی عشق میں اور دل زار کی قدر ضبط نے بات بڑھائی ہوگی آئے دن کی تو یہ رنجش ٹھہری کس طرح ...

    مزید پڑھیے

    کسی کا انہیں پاس غربت نہیں ہے

    کسی کا انہیں پاس غربت نہیں ہے پرائی مصیبت مصیبت نہیں ہے طلب شیوۂ اہل ہمت نہیں ہے مرا دل کسی کی امانت نہیں ہے کچھ ایسا زمانے نے بدلا ہے پہلو کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے نصیبوں سے ملتا ہے درد محبت یہ وہ چیز ہے جس کی قیمت نہیں ہے بتوں سے ستم پر بھی اظہار الفت رشیدؔ آپ میں آدمیت ...

    مزید پڑھیے

    مرا نام قیس کیوں کر ترے نام تک نہ پہنچے

    مرا نام قیس کیوں کر ترے نام تک نہ پہنچے بخدا وہ مقتدی کیا جو امام تک نہ پہنچے وہ حیات عارضی کیا جو دوام تک نہ پہنچے وہ اصول زندگی کیا جو نظام تک نہ پہنچے جو مجھے ذلیل کہہ کر مجھے پوچھتے ہو سب سے مری ذات تک تو پہنچے مرے نام تک نہ پہنچے یہ کسی کا مجھ سے کہنا کرے خلق جس سے رسوا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    محبت میں دل سختیاں اور بھی ہیں

    محبت میں دل سختیاں اور بھی ہیں اٹھانے کو سنگ گراں اور بھی ہیں دھواں میری آہوں کا چھایا ہوا ہے تہہ آسماں آسماں اور بھی ہیں ستانا جلانا ہی آتا ہے تم کو سوا اس کے کچھ خوبیاں اور بھی ہیں مرے دل کو لے کر نہ پامال کیجئے کہ اس جنس کے قدرداں اور بھی ہیں ابھی تو فقط ہجر میں دل مٹا ہے مگر ...

    مزید پڑھیے

    دل عشق میں ان کے ہارتے ہیں

    دل عشق میں ان کے ہارتے ہیں کاندھے سے یہ بوجھ اتارتے ہیں ملتا نہیں ان کا کچھ ٹھکانا ہر جا ہم انہیں پکارتے ہیں لے لے کے کسی کا نام ہر دم ہم عمر کے دن گزارتے ہیں اس بگڑے ہوئے کا کیا ٹھکانا وہ آپ جسے سنوارتے ہیں ہوتے ہیں وہی رشیدؔ مایوس ہر طرح جو جان مارتے ہیں

    مزید پڑھیے

    ہے نہایت سخت شان امتحان کوئے دوست

    ہے نہایت سخت شان امتحان کوئے دوست زندگی سے ہاتھ دھو لیں ساکنان کوئے دوست جب نہیں پاتے پتہ ناواقفان کوئے دوست درد اٹھ اٹھ کے بتاتا ہے نشان کوئے دوست تنگ کرتے ہیں ہمیں کیوں پاسبان کوئے دوست اور ہیں دو چار دن ہم میہمان کوئے دوست ناتواں یہ اور منزل عشق کی دشوار تر چلتے چلتے تھک ...

    مزید پڑھیے

    ہیں سرنگوں جو طعنۂ خلق خدا سے ہم

    ہیں سرنگوں جو طعنۂ خلق خدا سے ہم کیا ہو گئے کسی کی محبت میں کیا سے ہم اب تک کبھی کے مٹ گئے ہوتے جفا سے ہم زندہ ہیں اے رشیدؔ کسی کی دعا سے ہم یاد آ گئے جب اپنے گلے میں وہ دست ناز روئے لپٹ لپٹ کے ترے نقش پا سے ہم بیمار درد ہجر کی پرسش سے فائدہ اچھے ہیں یا برے ہیں تمہاری بلا سے ...

    مزید پڑھیے

    ترک ستم پہ وہ جو قسم کھا کے رہ گئے

    ترک ستم پہ وہ جو قسم کھا کے رہ گئے ارمان دل میں عرض تمنا کے رہ گئے تم کہتے کہتے ہم سے جو شرما کے رہ گئے کیا بات تھی جو تا بہ زباں لا کے رہ گئے دیتا ہے ساتھ کون کسی کا پس فنا سب دوست تا لحد مجھے پہنچا کے رہ گئے یا میں نے راہ عشق و وفا سے گریز کی یا ہم نفس مرے مجھے سمجھا کے رہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2