اٹھ کر ترے در سے کہیں جانے کے نہیں ہم
اٹھ کر ترے در سے کہیں جانے کے نہیں ہم
محتاج کسی اور ٹھکانے کے نہیں ہم
ٹھہرا ہے عیادت پہ سفر ملک عدم کا
آنے کے نہیں آپ تو جانے کے نہیں ہم
جو تم نے لگائی ہے وہ ہے قدر کے قابل
اس آگ کو اشکوں سے بجھانے کے نہیں ہم
لو آؤ سنو ہم سے غم ہجر کی حالت
گزری ہے جو ہم پر وہ چھپانے کے نہیں ہم
احوال شب غم پہ رشیدؔ آج وہ بولے
قائل ترے اس جھوٹے فسانے کے نہیں ہم