مفت دشنام یار سنتے ہیں

مفت دشنام یار سنتے ہیں
ایک کہہ کر ہزار سنتے ہیں


تم حمایت کرو نہ غیروں کی
چار کہتے ہیں چار سنتے ہیں


ہم فدائے چمن قفس میں بھی
ذکر فصل بہار سنتے ہیں


کچھ تو ہے بات جو ترے منہ سے
سخن ناگوار سنتے ہیں


آپ اور آئیں اپنے وعدے پر
ایسے فقرے ہزار سنتے ہیں


اس سے ملنے کو دل تڑپتا ہے
ہم جسے بے قرار سنتے ہیں


ہم تغزل میں آج تجھ کو رشیدؔ
حاصل روزگار سنتے ہیں