تجھ سے وحشت میں بھی غافل کب ترا دیوانہ تھا

تجھ سے وحشت میں بھی غافل کب ترا دیوانہ تھا
دل میں تیری یاد تھی لب پر ترا افسانہ تھا


رات جو زاہد شریک جلسۂ رندانہ تھا
تھی صراحی خندہ لب گردش میں ہر پیمانہ تھا


مے کدہ بے جام چشم یار ماتم خانہ تھا
دیدۂ پرخوں مری آنکھوں میں ہر پیمانہ تھا


ہو گیا تھا مجھ کو جس دن سے اسیری کا خیال
میری آنکھوں میں تو اس دن سے چمن ویرانہ تھا


بزم ساقی میں تہی دستی نے کھو دی آبرو
بخت بد اپنا شریک گردش پیمانہ تھا


میں گلہ قسمت کا کرتا تھا تو سوتے تھے نصیب
شکوۂ تقدیر بہر خواب بخت افسانہ تھا


بڑھ گئے مٹنے سے تیرے دشمنوں کے حوصلے
اے مریض درد و غم تجھ کو ابھی مرنا نہ تھا


میں نے ناحق ہی رشیدؔ زار کو رسوا کیا
آپ کے سر کی قسم وہ آپ کا دیوانہ تھا