Rana Abdurrab

رانا عبدالرب

رانا عبدالرب کی غزل

    بقا کے واسطے یہ اہتمام کرتا ہے

    بقا کے واسطے یہ اہتمام کرتا ہے ہمیں جو جھک کے زمانہ سلام کرتا ہے ہمیں جھکانے کی کوشش میں لوگ جھکنے لگے ہمارا بغض بھی کیا خوب کام کرتا ہے ہے ساتھ چلنا جسے ہاتھ تھام لے میرا فقیر یاروں میں حجت تمام کرتا ہے ہمارے نام سے نفرت منافقین کو ہے ہمارا نام بغاوت کو عام کرتا ہے زمیں پہ ...

    مزید پڑھیے

    اسی جگہ پہ اندھیروں کے غول پلتے ہیں

    اسی جگہ پہ اندھیروں کے غول پلتے ہیں سو بام و در پہ چراغوں کا نور ملتے ہیں وہ خوش خصال اگر دسترس میں آ جائے ہمارے ہاتھ ہمارے لبوں سے جلتے ہیں تمہارے ہجر کو فاقہ کشی نہیں سونپی تمہارے درد مرے آنسوؤں پہ پلتے ہیں تمہارے قرب کی حدت کا ہی تماشا ہے ذرا ذرا سا جو ہم رات بھر پگھلتے ...

    مزید پڑھیے

    مرنے کا خوف بڑھنے لگا اختیار سے

    مرنے کا خوف بڑھنے لگا اختیار سے اب زندگی اتار مجھے اپنی کار سے اتنا کہا کہ تجھ سے محبت ہے لڑ پڑا اتنا تو اب مذاق بھی ہوتا ہے یار سے میں زندگی کی بس میں لطیفے ہوں بیچتا جلنے لگے ہیں لوگ مرے کاروبار سے کیونکہ سڑک سے آپ کی گاڑی گزرنی ہے سارے درخت نکلے ہوئے ہیں قطار سے میں مطمئن ...

    مزید پڑھیے

    مطمئن ہوں میں اس خسارے پر

    مطمئن ہوں میں اس خسارے پر سب لٹایا ہے اپنے پیارے پر کس نے رکنا ہے کس نے جانا ہے منحصر ہے ترے اشارے پر اس کنارے پہ میں اکیلا ہوں کون ہے دوسرے کنارے پر تو پلٹ کر کبھی تو آئے گا جی رہے ہیں اسی سہارے پر کس لیے بد گمان ہوتے ہو نام لکھا ہے جب ستارے پر وہ قفس تو کبھی کھلا ہی نہیں ہم نے ...

    مزید پڑھیے

    مجھ محبت کے سزاوار پہ تہمت نہ لگا

    مجھ محبت کے سزاوار پہ تہمت نہ لگا مجھ کو جھٹلا دے مگر پیار پہ تہمت نہ لگا سست رو شخص مرا نقش قدم دھیان میں رکھ مجھ سے آ مل مری رفتار پہ تہمت نہ لگا لوگ بکتے ہیں تو بکتے رہیں بے شک لیکن کم سے کم تو مرے کردار پہ تہمت نہ لگا میں نے چھینی نہیں عزت سے کمائی ہے یہ میری عزت مری دستار پہ ...

    مزید پڑھیے

    سڑک کا درد درختوں سے ہمکنار نہ ہو

    سڑک کا درد درختوں سے ہمکنار نہ ہو مسافروں کو بھی اتنا سفر سے پیار نہ ہو زمانہ بول رہا ہو تو مختصر بولے اگر وہ بول رہا ہو تو اختصار نہ ہو زمین اپنے کٹاؤ پہ رو کے کہتی ہے درخت کاٹنے والوں پہ اعتبار نہ ہو کسی نے ٹھیکا نہیں لے رکھا زمانے کا تمہارا غم ہو تو پھر کون سوگوار نہ ہو میں ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کا جواز شاخوں پر

    زندگی کا جواز شاخوں پر پنچھیوں کی نماز شاخوں پر یار ہم عمر خضر کے ہوں درخت آئے عمر دراز شاخوں پر پھل گرے ہیں تو آشکار ہوئے میں نے لکھے تھے راز شاخوں پر کس نے آرا چلایا فرقت کا زندگی کی گداز شاخوں پر شب کے ڈھلنے پہ روز سنتا ہوں میں تہجد کا ساز شاخوں پر ہیں ترے نام کے حسیں ...

    مزید پڑھیے

    لے کر ہجر کی پہلی تلخی چلتا ہے

    لے کر ہجر کی پہلی تلخی چلتا ہے دیکھتے ہیں کہ کب تک فروری چلتا ہے میں کہتا ہوں تف ہے ایسے جینے پر سانس کا پہیہ تیرے بن بھی چلتا ہے اچھا تیرا رستہ دیکھنا ہے میں نے اچھا بندہ لے کر نوکری چلتا ہے اس کے قرب میں رہ کر جانا جھوٹ ہے یہ کھوٹا سکہ اک دن لازمی چلتا ہے تیرے آنے پر تو بارش ...

    مزید پڑھیے

    جن سے شکوہ تھا وہ بہرے گونگے ہیں

    جن سے شکوہ تھا وہ بہرے گونگے ہیں ہم کو خواب دکھانے والے اندھے ہیں وہ خاموش ہوا تو ہم پر بھید کھلا خاموشی کے کتنے سارے لہجے ہیں ایک طرح سے شکوہ ہے یہ پانی سے صحرا میں اک شخص نے کنکر پھینکے ہیں خالی پن کے کرب سے شاید واقف تھا جس نے مجھ کو خالی میسج بھیجے ہیں اپنے بارے میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    جیت کر بے قراری جائے گی

    جیت کر بے قراری جائے گی اور پھر جیت ہاری جائے گی جنگ اگر چھڑ گئی خداؤں میں صرف مخلوق ماری جائے گی پہلے اندر کو پرکھا جائے گا پھر محبت اتاری جائے گی کب میں پتھر بنایا جاؤں گا اور کب غم گساری جائے گی اس گھڑی مصطفیٰ ہی آئیں گے جب محبت پکاری جائے گی

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2