سڑک کا درد درختوں سے ہمکنار نہ ہو

سڑک کا درد درختوں سے ہمکنار نہ ہو
مسافروں کو بھی اتنا سفر سے پیار نہ ہو


زمانہ بول رہا ہو تو مختصر بولے
اگر وہ بول رہا ہو تو اختصار نہ ہو


زمین اپنے کٹاؤ پہ رو کے کہتی ہے
درخت کاٹنے والوں پہ اعتبار نہ ہو


کسی نے ٹھیکا نہیں لے رکھا زمانے کا
تمہارا غم ہو تو پھر کون سوگوار نہ ہو


میں اک اشارے پہ نکلا ہوں قافلے سے کہ بس
جو بے دلی کا اشارہ ہے بار بار نہ ہو


اسی مقام کو ذلت کی موت کہتے ہیں
کوئی شعور کے موسم میں شرمسار نہ ہو


زمانہ ایسے مری دسترس میں ہے عبدلؔ
کہ جیسے باپ کو بیٹوں پہ اختیار نہ ہو