جن سے شکوہ تھا وہ بہرے گونگے ہیں

جن سے شکوہ تھا وہ بہرے گونگے ہیں
ہم کو خواب دکھانے والے اندھے ہیں


وہ خاموش ہوا تو ہم پر بھید کھلا
خاموشی کے کتنے سارے لہجے ہیں


ایک طرح سے شکوہ ہے یہ پانی سے
صحرا میں اک شخص نے کنکر پھینکے ہیں


خالی پن کے کرب سے شاید واقف تھا
جس نے مجھ کو خالی میسج بھیجے ہیں


اپنے بارے میں بھی تھوڑا علم تو ہو
ہم مدت سے اپنے پیچھے پیچھے ہیں


ہم نے اپنی کم فہمی پر دستک دی
گرچہ ہم کو علم تھا آگے تالے ہیں


تنہائی سے محفل سینچی جاتی ہے
اک بندے کے کافی سارے سائے ہیں


جس منظر میں عبدلؔ آنکھیں گھول چکا
اس منظر کو دیکھنے والے اندھے ہیں