اسی جگہ پہ اندھیروں کے غول پلتے ہیں
اسی جگہ پہ اندھیروں کے غول پلتے ہیں
سو بام و در پہ چراغوں کا نور ملتے ہیں
وہ خوش خصال اگر دسترس میں آ جائے
ہمارے ہاتھ ہمارے لبوں سے جلتے ہیں
تمہارے ہجر کو فاقہ کشی نہیں سونپی
تمہارے درد مرے آنسوؤں پہ پلتے ہیں
تمہارے قرب کی حدت کا ہی تماشا ہے
ذرا ذرا سا جو ہم رات بھر پگھلتے ہیں
مرا نصیب ہے ایسے مقام عبرت پر
جو ہاتھ رکھتے نہیں ہیں وہ ہاتھ ملتے ہیں
ہماری آنکھ کو مت سونپ یہ متاع گراں
کہ تیرے خواب ان آنکھوں سے کب سنبھلتے ہیں
تمہاری چپ کا تقاضہ ہے خالی پن عبدلؔ
نہ سر جھکاؤ خدارا فقیر چلتے ہیں