زندگی کا جواز شاخوں پر
زندگی کا جواز شاخوں پر
پنچھیوں کی نماز شاخوں پر
یار ہم عمر خضر کے ہوں درخت
آئے عمر دراز شاخوں پر
پھل گرے ہیں تو آشکار ہوئے
میں نے لکھے تھے راز شاخوں پر
کس نے آرا چلایا فرقت کا
زندگی کی گداز شاخوں پر
شب کے ڈھلنے پہ روز سنتا ہوں
میں تہجد کا ساز شاخوں پر
ہیں ترے نام کے حسیں پنچھی
میری پلکوں کی بعض شاخوں پر
ہیں محبت کے پھل لگے سارے
معرفت کی دراز شاخوں پر