Ram Krishn Muztar

رام کرشن مضطر

  • 1927 - 1984

رام کرشن مضطر کی غزل

    بہاریں اور وہ رنگیں نظارے یاد آتے ہیں

    بہاریں اور وہ رنگیں نظارے یاد آتے ہیں وہ دل کش وادیاں وہ ماہ پارے یاد آتے ہیں محبت کے وہ جاں پرور سہارے یاد آتے ہیں تری آغوش میں جو دن گزارے یاد آتے ہیں وہ موسم وہ سماں وہ دن وہ صبح و شام وہ راتیں وہ ہنستے ناچتے گاتے ستارے یاد آتے ہیں وہ جھیلیں وہ چمن وہ غنچہ و گل اور وہ سبزہ مرے ...

    مزید پڑھیے

    مجبور تو بہت ہیں محبت میں جی سے ہم

    مجبور تو بہت ہیں محبت میں جی سے ہم یہ اور بات ہے نہ کہیں کچھ کسی سے ہم اک شام ہم سخن تھے چمن میں کلی سے ہم یادش بخیر پھر نہ ملے زندگی سے ہم اللہ رے وہ وقت وہ مجبورئ حیات رو رو کے ہو رہے تھے جدا جب کسی سے ہم تکلیف التفات نہ کر اے نگاہ ناز اب مطمئن ہیں اپنے غم زندگی سے ہم ہیں یاد اس ...

    مزید پڑھیے

    وہ رہ و رسم نہ وہ ربط نہاں باقی ہے

    وہ رہ و رسم نہ وہ ربط نہاں باقی ہے پھر بھی اس دل کو محبت کا گماں باقی ہے اب بھی لوگوں کی زباں پر ہیں کئی افسانے اپنا قصہ بہ حدیث دگراں باقی ہے اب نہیں مجھ کو میسر ترا دامن پھر بھی جوشش دیدۂ خوں ناب فشاں باقی ہے گل و نسریں کے تصور سے مری سانسوں میں نکہت زلف مسیحا نفساں باقی ...

    مزید پڑھیے

    میرے تصورات میں اب کوئی دوسرا نہیں

    میرے تصورات میں اب کوئی دوسرا نہیں آپ کو جانتا ہوں میں غیر سے واسطا نہیں دیکھ تو اے نگاہ دوست کیا تجھے دل دیا نہیں کون ہے مجھ سے آشنا تو اگر آشنا نہیں دل کو سکون کر عطا جان کو بخش دے قرار تیرے کرم کی دیر ہے درد یہ لا دوا نہیں جس سے نہ ہو مرا گزر رہ نہیں تری رہ گزر جس پہ نہ میرا سر ...

    مزید پڑھیے

    گردش جام بھی ہے رقص بھی ہے ساز بھی ہے

    گردش جام بھی ہے رقص بھی ہے ساز بھی ہے جس میں نغموں کا تلاطم ہے وہ آواز بھی ہے اتنا سادہ بھی اسے اے دل پر شوق نہ جان التفات ایک نگاہ غلط انداز بھی ہے مدعا ان کا سمجھ میں نہیں آتا اے دل بے سبب ہے یہ تغافل کہ کوئی راز بھی ہے غرق کیفیت آہنگ طرب سن تو سہی زندگی درد میں ڈوبی ہوئی آواز ...

    مزید پڑھیے

    خراماں شاہد سیمیں بدن ہے

    خراماں شاہد سیمیں بدن ہے قیامت آسمانی پیرہن ہے تبسم ہے کہ موج نور و نکہت نظر ہے یا محبت کی کرن ہے مری مستی کا اندازہ ہے کس کو نگاہ ناز میری ہم سخن ہے وہ میری زندگی پر حکمراں ہیں مرے بس میں نہ یہ تن ہے نہ من ہے ہزاروں رنگ ہیں میری نظر میں تصور میں کسی کی انجمن ہے خیالوں میں مرے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں راز دل اب عیاں ہو نہ جائے

    کہیں راز دل اب عیاں ہو نہ جائے نگاہ محبت زباں ہو نہ جائے وہ کچھ مہرباں سے نظر آ رہے ہیں کہیں وقت نا مہرباں ہو نہ جائے چھپاتا تو ہوں دل کی حالت کو لیکن کسی کی نظر راز داں ہو نہ جائے کوئی پرسش حال کو آ رہا ہے غم آرزو پھر جواں ہو نہ جائے زمانے میں اب میرے چرچے ہیں مضطرؔ مری زندگی ...

    مزید پڑھیے

    مستقل دید کی یہ شکل نظر آئی ہے

    مستقل دید کی یہ شکل نظر آئی ہے دل میں اب آپ کی تصویر اتر آئی ہے تو نے کس لطف سے چھیڑا ہے انہیں موج نسیم جھوم کر زلف سیہ تا بہ کمر آئی ہے کہہ رہے ہیں تری آنکھوں کے بدلتے تیور یہ ہنسی آج بہ انداز دگر آئی ہے زندگی ناچ کہ وہ جان چمن جان بہار دست رنگیں میں لئے ساغر زر آئی ہے دل ہو ...

    مزید پڑھیے

    پھر کوئی خلش نزد رگ جاں تو نہیں ہے

    پھر کوئی خلش نزد رگ جاں تو نہیں ہے پھر دل میں وہی نشتر مژگاں تو نہیں ہے کیوں شام سے ڈوبے سے ہو امید کے تارو آبادئ دل‌ شہر خموشاں تو نہیں ہے کیوں ہے دل وحشت زدہ بیزار گلوں سے تاحد نظر راہ بیاباں تو نہیں ہے کیوں اٹھنے لگے آج قدم جانب صحرا پھر جوش جنوں سلسلہ جنباں تو نہیں ہے اے ...

    مزید پڑھیے

    مری زندگی بھی تو ہے مرا مدعا بھی تو ہے

    مری زندگی بھی تو ہے مرا مدعا بھی تو ہے میں تجھی کو چاہتا ہوں تو ہی میری آرزو ہے کسے ڈھونڈھتی ہیں ہر سو مری بے قرار نظریں تو یہ خوب جانتا ہے مجھے کس کی جستجو ہے مری چشم حسن ہی میں ترے رخ کی تابشیں ہیں مرے حلقۂ نظر میں تری زلف مشک بو ہے جو کرم پہ تم ہو مائل تو یہ شان ہے تمہاری نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3