وہ رہ و رسم نہ وہ ربط نہاں باقی ہے

وہ رہ و رسم نہ وہ ربط نہاں باقی ہے
پھر بھی اس دل کو محبت کا گماں باقی ہے


اب بھی لوگوں کی زباں پر ہیں کئی افسانے
اپنا قصہ بہ حدیث دگراں باقی ہے


اب نہیں مجھ کو میسر ترا دامن پھر بھی
جوشش دیدۂ خوں ناب فشاں باقی ہے


گل و نسریں کے تصور سے مری سانسوں میں
نکہت زلف مسیحا نفساں باقی ہے


مدتیں گزریں تری دید کو پر آنکھوں میں
آج بھی رقص بہاراں کا سماں باقی ہے


تیرے انداز ستم تیرے تغافل کے نثار
دل میں اک حسرت بے نام و نشاں باقی ہے


آہ یہ جادۂ پر خم یہ بھیانک جنگل
دل درماندہ و عمر گزراں باقی ہے


دل مضطر کو اب امید ملاقات نہیں
یاد تیری مگر اے دشمن جاں باقی ہے