مستقل دید کی یہ شکل نظر آئی ہے

مستقل دید کی یہ شکل نظر آئی ہے
دل میں اب آپ کی تصویر اتر آئی ہے


تو نے کس لطف سے چھیڑا ہے انہیں موج نسیم
جھوم کر زلف سیہ تا بہ کمر آئی ہے


کہہ رہے ہیں تری آنکھوں کے بدلتے تیور
یہ ہنسی آج بہ انداز دگر آئی ہے


زندگی ناچ کہ وہ جان چمن جان بہار
دست رنگیں میں لئے ساغر زر آئی ہے


دل ہو مسرور کہ آغوش خزاں دیدہ میں پھر
لہلہاتی ہوئی شاخ گل تر آئی ہے


وہ ز سر تا بہ قدم حسن کی اک آب لئے
جگمگاتی ہوئی مانند گہر آئی ہے


ہو نہ حیراں کہ اندھیرے ہیں اجالوں کی دلیل
شام کے بعد ہی اے دوست سحر آئی ہے


بن کے غرقاب سفینے کی مچلتی ہوئی یاد
سینۂ بحر پہ اک موج ابھر آئی ہے


کرم رہبر صادق کے نثار اے مضطرؔ
زندگی سخت مراحل سے گزر آئی ہے