Rahman Khawar

رحمان خاور

رحمان خاور کی غزل

    بجھا بھی ہو تو اجالا مری نظر میں رہے

    بجھا بھی ہو تو اجالا مری نظر میں رہے کوئی چراغ تو ایسا بھی میرے گھر میں رہے بنا بنا کے بگاڑا گیا ہمیں اکثر مثال کوزہ کسی دست کوزہ گر میں رہے حصار عشق سے باہر نکل سکے نہ کبھی کہ ہم بچھڑ کے بھی تجھ سے ترے اثر میں رہے رہ سفر میں سر شام ہم ٹھہر تو گئے مگر کچھ ایسے کہ جیسے کوئی سفر میں ...

    مزید پڑھیے

    ادب نواز تو ہو کوئی فن شناس تو ہو

    ادب نواز تو ہو کوئی فن شناس تو ہو ہمیں بھی شہر میں جینے کی کوئی آس تو ہو یہ کیا کہ میں ہی سہے جاؤں رنج تنہائی مری طرح کبھی اس کا جی اداس تو ہو چلے تو کیسے چلے سلسلہ محبت کا وہ بے رخی ہی سہی کچھ نہ کچھ اساس تو ہو یہ آرزو ہے کبھی میں بھی کھڑکیاں کھولوں مگر گلی کی ہوا میرے گھر کو راس ...

    مزید پڑھیے

    ہر منزل میں ہر رستے میں سچ اپنے کام آیا ہے

    ہر منزل میں ہر رستے میں سچ اپنے کام آیا ہے ہم نے جھوٹے لوگوں کو اکثر گھر تک پہنچایا ہے وعدہ شکن وہ لاکھ سہی پر مجھ کو حیراں کرنے کو کبھی کبھی تو مجھ سے ملنے وعدہ پر بھی آیا ہے چشم تماشا بھی شرمندہ حیرت میں آئینے بھی وقت کی دھوپ نے کیسا کیسا چہروں کو جھلسایا ہے وہ جو دیا روشن ہی ...

    مزید پڑھیے

    نظر میں اپنی کبھی اس قدر برا تو نہ تھا

    نظر میں اپنی کبھی اس قدر برا تو نہ تھا میں اپنے آپ سے پہلے گریز پا تو نہ تھا یہ کیا کیا اسے تقدیر سونپ دی اپنی مری طرح وہ اک انسان تھا خدا تو نہ تھا گزر گیا جو برابر سے منہ چھپائے ہوئے یہ سوچتا ہوں کہیں کوئی آشنا تو نہ تھا کسے قبول تھا زندان آب و گل لیکن اب اور اس کے سوا کوئی ...

    مزید پڑھیے

    محال تھا کہ یہ طوفان رنگ و بو آئے

    محال تھا کہ یہ طوفان رنگ و بو آئے اگر بہار ترا پیرہن نہ چھو آئے بیان درد اور اس انجمن میں دیوانو کہاں ڈبو کے محبت کی آبرو آئے یہ انگلیاں کہ اب اک جام کو ترستی ہیں کبھی انہیں سے ستاروں کی نبض چھو آئے نہ اس قدر بھی تکلف سے کام لو کہ شراب جو آئے بھی تو نظر خون آرزو آئے ہمارا پی کے ...

    مزید پڑھیے

    وہ کم یقیں جو سواد گماں بھی رہتا ہے

    وہ کم یقیں جو سواد گماں بھی رہتا ہے تمام عمر کسی امتحاں میں رہتا ہے یہ روح و جسم کا رشتہ بھی خوب رشتہ ہے کہ جیسے کوئی پرائے مکاں میں رہتا ہے جو تو نہیں مرے ہم راہ تیری یاد سہی کوئی تو ساتھ مرے دشت جاں میں رہتا ہے کھلا یہ چاندنی شب میں کہ ایک سایہ سا ندی کے پار شکستہ مکاں میں رہتا ...

    مزید پڑھیے

    بچھا ہوا کوئی تنہائیوں کا جال نہ تھا

    بچھا ہوا کوئی تنہائیوں کا جال نہ تھا ترے فراق سے پہلے یہ گھر کا حال نہ تھا تھکے تو یوں کہ ہمیں آرزو تھی سائے کی صعوبتوں سے سفر کی بدن نڈھال نہ تھا کچھ ایسے موڑ پہ بچھڑے تھے ہم محبت میں مجھے بھی رنج اسے بھی کوئی ملال نہ تھا نگاہ تو نے کسی اور ہی پہ کی ہوتی جو ہم شکستہ دلوں کا تجھے ...

    مزید پڑھیے

    کیا یہ دیکھیں کہ کوئی اور تماشا کیا ہے

    کیا یہ دیکھیں کہ کوئی اور تماشا کیا ہے ہم کو خود اپنے علاوہ نظر آتا کیا ہے بعض دریاؤں کے منظر بھی عجب ہوتے ہیں آدمی سوچتا رہ جائے کہ صحرا کیا ہے وہ تو اچھا ہے کہ ہم ہی خس و خاشاک نہیں ورنہ ان تیز ہواؤں کا بھروسہ کیا ہے بجھ گئے ہیں جو دیے پھر سے جلائیں کہ نہیں کوئی بتلاؤ ہمیں رنگ ...

    مزید پڑھیے

    نہ ہو گر دھیان میں چہرہ کسی کا

    نہ ہو گر دھیان میں چہرہ کسی کا بہت مشکل سفر ہے زندگی کا گلی کوچے بہت روشن ہیں لیکن گھروں میں مسئلہ ہے روشنی کا چنوں پلکوں سے کب تک سنگریزے خداوندا کوئی آنسو خوشی کا زمیں صدیوں پرانی ہو چکی ہے سہے گی بوجھ کب تک آدمی کا نہ جانے اور کتنا فاصلہ ہے ہماری زندگی سے زندگی کا کوئی خود ...

    مزید پڑھیے

    ادھر بھی آئیں کبھی دھوپ کے ستائے ہوئے

    ادھر بھی آئیں کبھی دھوپ کے ستائے ہوئے شجر کھڑے ہیں سر راہ سر جھکائے ہوئے کچھ اور بات کرو گردش جہاں کے سوا نہ واقعات سناؤ سنے سنائے ہوئے زمیں پہ ڈھیر کئے دوپہر کے سورج نے تمام پھول شب ماہ کے کھلائے ہوئے دھواں دھواں ہیں وہ چہرے بھی اب نہ جانے کیوں مرے لیے تھے کبھی جن پہ رنگ آئے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5