ادب نواز تو ہو کوئی فن شناس تو ہو
ادب نواز تو ہو کوئی فن شناس تو ہو
ہمیں بھی شہر میں جینے کی کوئی آس تو ہو
یہ کیا کہ میں ہی سہے جاؤں رنج تنہائی
مری طرح کبھی اس کا جی اداس تو ہو
چلے تو کیسے چلے سلسلہ محبت کا
وہ بے رخی ہی سہی کچھ نہ کچھ اساس تو ہو
یہ آرزو ہے کبھی میں بھی کھڑکیاں کھولوں
مگر گلی کی ہوا میرے گھر کو راس تو ہو
لہو لہو ہے بدن پھر بھی زندگی کے لئے
مرے لبوں پہ کوئی حرف نا سپاس تو ہو
اس التفات کو میں کیسے بے رخی سمجھوں
نظر سے دور سہی دل کے آس پاس تو ہو
یہ اس کے آتے ہی کیوں چپ سی لگ گئی خاورؔ
وہ سامنے ہے تو کچھ اس سے التماس تو ہو