بچھا ہوا کوئی تنہائیوں کا جال نہ تھا

بچھا ہوا کوئی تنہائیوں کا جال نہ تھا
ترے فراق سے پہلے یہ گھر کا حال نہ تھا


تھکے تو یوں کہ ہمیں آرزو تھی سائے کی
صعوبتوں سے سفر کی بدن نڈھال نہ تھا


کچھ ایسے موڑ پہ بچھڑے تھے ہم محبت میں
مجھے بھی رنج اسے بھی کوئی ملال نہ تھا


نگاہ تو نے کسی اور ہی پہ کی ہوتی
جو ہم شکستہ دلوں کا تجھے خیال نہ تھا


کبھی کبھی کوئی بادل برس بھی جاتا تھا
زمین شہر کا اتنا برا تو حال نہ تھا


چھپا ہوا مرا دشمن تھا خود مرے اندر
سو اپنے آپ سے بچنے کا کچھ سوال نہ تھا


گئے دنوں کا تجھے دھیان تک نہیں خاورؔ
ترا وہ عشق یہی ہے جسے زوال نہ تھا