وہ کم یقیں جو سواد گماں بھی رہتا ہے

وہ کم یقیں جو سواد گماں بھی رہتا ہے
تمام عمر کسی امتحاں میں رہتا ہے


یہ روح و جسم کا رشتہ بھی خوب رشتہ ہے
کہ جیسے کوئی پرائے مکاں میں رہتا ہے


جو تو نہیں مرے ہم راہ تیری یاد سہی
کوئی تو ساتھ مرے دشت جاں میں رہتا ہے


کھلا یہ چاندنی شب میں کہ ایک سایہ سا
ندی کے پار شکستہ مکاں میں رہتا ہے


نہ اس میں رنگ وفا کا نہ عشق کی خوشبو
خبر نہیں وہ ابھی کس جہاں میں رہتا ہے


رہے زباں پہ کوئی داستان ہجر و وصال
وہ ایک شخص ہی لفظ و بیاں میں رہتا ہے


مرے دکھوں کی جسے کچھ خبر نہیں خاورؔ
مرے مکاں کے برابر مکاں میں رہتا ہے