کام کچھ تو مرا لہو آیا
کام کچھ تو مرا لہو آیا باغ میں موسم نمو آیا ہجر میں تیرے مجھ پہ کیا گزری آج تک پوچھنے نہ تو آیا جس طرح میں نے تجھ کو یاد کیا یاد یوں کب کسی کو تو آیا تیرا کوچہ ہے یا کوئی مقتل جو بھی آیا لہو لہو آیا میں اسی کی طرح ملا اس سے آئنہ بن کے روبرو آیا ختم دور خیال و خواب ہوا لمحۂ ترک ...