Rahman Khawar

رحمان خاور

رحمان خاور کی غزل

    کام کچھ تو مرا لہو آیا

    کام کچھ تو مرا لہو آیا باغ میں موسم نمو آیا ہجر میں تیرے مجھ پہ کیا گزری آج تک پوچھنے نہ تو آیا جس طرح میں نے تجھ کو یاد کیا یاد یوں کب کسی کو تو آیا تیرا کوچہ ہے یا کوئی مقتل جو بھی آیا لہو لہو آیا میں اسی کی طرح ملا اس سے آئنہ بن کے روبرو آیا ختم دور خیال و خواب ہوا لمحۂ ترک ...

    مزید پڑھیے

    شب گزر کر بھی اندھیرا کم نہیں

    شب گزر کر بھی اندھیرا کم نہیں اس کی زلفیں تو کہیں برہم نہیں غیر بن کر جب گئے اس بزم میں ہم نے دیکھا ہم سے وہ برہم نہیں ہیں نظر میں الجھنیں بھی زیست کی ورنہ ان زلفوں میں اتنے خم نہیں پاسبان گلستاں بنتے ہیں اور امتیاز شعلہ و شبنم نہیں آج بھی پیاسے رہے تو دیکھنا بزم میں ساقی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    زمین و آسماں سب ایک سے ہیں

    زمین و آسماں سب ایک سے ہیں ہمارے مہرباں سب ایک سے ہیں کسے اپنا کہیں کس کو پرایا جہاں ہم ہیں وہاں سب ایک سے ہیں جہاں والوں کے ظاہر پر نہ جاؤ یہ باطن میں میاں سب ایک سے ہیں نہیں کچھ فرق تجھ میں اور مجھ میں کہ ہم اہل جہاں سب ایک سے ہیں نہ کیوں ثابت ہو جرم بے گناہی گواہوں کے بیاں سب ...

    مزید پڑھیے

    ہم پہ وہ مہرباں زیادہ ہے

    ہم پہ وہ مہرباں زیادہ ہے اس یقیں میں گماں زیادہ ہے کچھ کمی ہے تو کارواں میں یہی رہبر کارواں زیادہ ہے ہے تو واعظ خدا پرست مگر لب پہ ذکر بتاں زیادہ ہے پیشتر بھی یہی قفس تھا مگر اب کے شور فغاں زیادہ ہے ظلم کی خیر ہو کہ عزم جواں اور بھی اب جواں زیادہ ہے اللہ اللہ بزم نو کے ...

    مزید پڑھیے

    خیال میں ہے جو چہرہ نظر بھی آئے گا

    خیال میں ہے جو چہرہ نظر بھی آئے گا وہ اپنے گھر سے کبھی میرے گھر بھی آئے گا بچھڑتے وقت کا منظر بھی دھیان میں رکھنا سفر میں کام یہ رخت سفر بھی آئے گا نکل تو آئے ہیں زندان تیرگی سے مگر یہ سوچتے ہیں ہمیں کچھ نظر بھی آئے گا سبھی نہ گھر کے دریچوں سے بچ کے گزریں گے ہوا کا کوئی تو جھونکا ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیا کہ بیٹھ گئے گرد رہ گزر کی طرح

    یہ کیا کہ بیٹھ گئے گرد رہ گزر کی طرح سفر تمام کرو دوستو سفر کی طرح رکے جو راہ میں ان پر نہ جانے کیا گزری ہمیں تو دھوپ ہے اب سایۂ شجر کی طرح فضا فضا جو پریشاں ہیں ابر کی صورت صدف صدف وہ ملیں گے کبھی گہر کی طرح غم جہاں کی تپش سے سلگ رہے ہیں بدن حیات بھی ہے کسی دشت کے سفر کی طرح کبھی ...

    مزید پڑھیے

    راہ کی دھوپ سے مفر ہی نہیں

    راہ کی دھوپ سے مفر ہی نہیں ہم جہاں ہیں وہاں شجر ہی نہیں یا تو مجھ میں کوئی ہنر ہی نہیں یا کوئی صاحب نظر ہی نہیں ہوں یہ کس تیرگی کے زنداں میں روشنی کا جہاں گزر ہی نہیں کوئی ڈوبے کوئی صدا ابھرے شور دریا پہ کچھ اثر ہی نہیں خشک پتے اڑا رہی ہے ہوا اب کوئی پھول شاخ پر ہی نہیں گفتگو ...

    مزید پڑھیے

    وہ انجمن ہو کہ مقتل لہو لہو ہی رہے

    وہ انجمن ہو کہ مقتل لہو لہو ہی رہے جہاں کہیں بھی رہے ہم تو سرخ رو ہی رہے وہ دور ہے کہ غم وصل و ہجر ایک طرف میں سوچتا ہوں محبت کی آبرو ہی رہے نہ پوچھ ہم سے زمانے نے کیا سلوک کیا بہت ہے دل میں اگر تیری آرزو ہی رہے یہ مے کدہ ہے یہاں خون دل کی بات نہ کر یہاں تو تذکرۂ بادہ و سبو ہی ...

    مزید پڑھیے

    اپنے پہلو میں چھپائے ہوئے پتھر نکلا

    اپنے پہلو میں چھپائے ہوئے پتھر نکلا یہ ترا شہر بھی تجھ سا ہی ستم گر نکلا تھی جو محفوظ مرے ساتھ مری خاک بدن لے اڑی تیز ہوا گھر سے جو باہر نکلا سب کی گویائی پہ حاوی تھی مری خاموشی کون مجھ سا تری محفل میں سخنور نکلا شہر میں پھیلا ہوا خوف شناسائی تھا گھر سے ہر شخص نیا روپ بدل کر ...

    مزید پڑھیے

    زخم تو بہت آئے پھر بھی حوصلہ رکھا

    زخم تو بہت آئے پھر بھی حوصلہ رکھا عمر بھر محبت میں ہم نے دل بڑا رکھا جس نے ایک لمحہ بھی تجھ سے واسطہ رکھا اپنے آپ کو خود سے عمر بھر جدا رکھا برگ خشک کی صورت لوگ ہو کے آوارہ سوچتے ہیں سرسر کا نام کیوں صبا رکھا جب اسے نہ آنا تھا پھر یہ کس توقع پر ہم نے گھر کا دروازہ رات بھر کھلا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5