Rahman Khawar

رحمان خاور

رحمان خاور کی غزل

    پاس سے یوں آنچل لہراتے لوگ گزرتے رہتے ہیں

    پاس سے یوں آنچل لہراتے لوگ گزرتے رہتے ہیں میرے بدن میں قوس قزح کے رنگ اترتے رہتے ہیں اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن کا ہے احساس جنہیں میری طرح وہ لوگ بھی اپنے آپ سے ڈرتے رہتے ہیں ہم نے دیکھنا چھوڑ دئے ہیں اک مدت سے ایسے خواب تعبیروں کی چاہت میں جو خواب کہ مرتے رہتے ہیں راہ میں چاہے ...

    مزید پڑھیے

    شام گزری ہے ابھی غم کی سحر باقی ہے

    شام گزری ہے ابھی غم کی سحر باقی ہے اک سفر ختم ہوا ایک سفر باقی ہے کس طرح گھر میں کہوں اپنے شکستہ گھر کو کوئی دیوار سلامت ہے نہ در باقی ہے زرد آتا ہے نظر خوف خزاں سے وہ بھی ایک پتا جو سر شاخ شجر باقی ہے اب جلائیں بھی دوبارہ تو وہ شاید نہ جلیں جن چراغوں پہ ہواؤں کا اثر باقی ہے کیوں ...

    مزید پڑھیے

    کیا کیا گماں نہ تھے مجھے اپنی اڑان پر

    کیا کیا گماں نہ تھے مجھے اپنی اڑان پر بازو جو شل ہوئے تو گرا ہوں چٹان پر خودداریوں سے کون یہ پوچھے کہ آج تک کتنے عذاب ہم نے لئے اپنی جان پر اب کے نہ جانے رت کو نظر کس کی کھا گئی اک بار بھی پڑی نہ دھنک آسمان پر کشتی میں سو گئے جو انہیں یہ خبر کہاں کتنا ہے آج زور ہوا بادبان پر خوش ...

    مزید پڑھیے

    وہ لمحہ میرے لیے کس قدر عذاب کا تھا

    وہ لمحہ میرے لیے کس قدر عذاب کا تھا حقیقتوں پہ گماں جب خیال و خواب کا تھا تمام عمر ہم اپنی انا میں مست رہے وہ نشہ سب سے الگ تھا جو اس شراب میں تھا کہاں گئے مرے موسم وہ آرزوؤں کے کہاں گیا جو زمانہ مرے شباب کا تھا مٹا دئے تھے سبھی حرف غم کی بارش نے عجیب حال مری زیست کی کتاب کا ...

    مزید پڑھیے

    غموں سے ہجر کے کچھ ایسے بد حواس رہے

    غموں سے ہجر کے کچھ ایسے بد حواس رہے وہ مل گئے بھی تو ہم دیر تک اداس رہے یہ انجمن تو ستم کو ستم ہی سمجھے گی ترا کرم کہ ہمیں ہم ادا شناس رہے وہ چاک دامنئ گل کا راز کیا جانیں بھری بہار میں جو خار بے لباس رہے جنوں ہے ایک جسارت جنوں ہے ایک ترنگ خرد نہیں کہ اسیر امید و یاس رہے نہ ٹوٹنا ...

    مزید پڑھیے

    شکایتیں نہ زمیں سے نہ آسمان سے ہیں

    شکایتیں نہ زمیں سے نہ آسمان سے ہیں کہ ایک عمر سے ہم لوگ بے زبان سے ہیں نہ ہو جو شہر کی مانند بود و باش نہیں یہی بہت ہے کہ صحرا میں ہم امان سے ہیں مری طرح ہدف عہد بے یقینی ہیں خود اپنے آپ سے جو لوگ بد گمان سے ہیں عجیب ہیں ترے کوچے میں بسنے والے بھی زمیں پہ رہتے ہیں وابستہ آسمان سے ...

    مزید پڑھیے

    عشق کرنے کا ارادہ ہو تو ہم سے ملنا

    عشق کرنے کا ارادہ ہو تو ہم سے ملنا تم کو خود سے کبھی ملنا ہو تو ہم سے ملنا قابل دید ہیں سب زخم ہمارے دل کے آپ کو شوق تماشا ہو تو ہم سے ملنا سایۂ گل میں ملاقات رہے گی تم سے موسم گل میں جو تنہا ہو تو ہم سے ملنا بے سبب ہم بھی کسی سے نہیں ملتے صاحب تم بھی ملنے کی تمنا ہو تو ہم سے ...

    مزید پڑھیے

    میں جب پہلے پہل اس شہر نا پرساں میں آیا تھا

    میں جب پہلے پہل اس شہر نا پرساں میں آیا تھا سبھی اپنے نظر آتے تھے لیکن کون اپنا تھا حسیں تھے دور ہی سے ساحل و دریا کے نظارہ مگر جب ڈوب کر دیکھا تو ساحل تھا نہ دریا تھا اسے ان فاصلوں کا کچھ نہ کچھ احساس تو ہوگا کبھی جس شخص کے سینے میں میرا دل دھڑکتا تھا سمٹ آیا ہو جیسے درد میرا اس ...

    مزید پڑھیے

    وہ اپنے عشق میں کیسا کمال رکھتا ہے

    وہ اپنے عشق میں کیسا کمال رکھتا ہے کہ بے رخی میں بھی میرا خیال رکھتا ہے جو آج میرا نہیں ہے وہ کل مرا ہوگا کہ ہر زمانہ عروج و زوال رکھتا ہے عجب نہیں وہ جہاں بھر کو بے وفا سمجھے نظر میں میری وفا کی مثال رکھتا ہے کہاں تلک کوئی دست کرم کو زحمت دے تمام شہر ہی دست سوال رکھتا ہے مری ...

    مزید پڑھیے

    سینے میں اک شور مچا ہے

    سینے میں اک شور مچا ہے سناٹا کتنا گہرا ہے آج بہت کم پھول کھلے ہیں شاید موسم بدل رہا ہے صحرا سے باہر نکلوں تو ہر رستہ گھر کا رستہ ہے وہ کیا بچھڑا میں نے سب سے ملنا جلنا چھوڑ دیا ہے گھر کے اندر حبس ہے کتنا باہر کتنی تیز ہوا ہے سڑکوں پر اک بھیڑ ہے خاورؔ سارا شہر مگر تنہا ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5