اس شاہراہ پر

بہتی آنکھوں نے
ہماری شناخت مٹا دی ہے
چہرے سے عاری جسم
سڑکوں پر لڑھکتا ہے
نفرت کرتا ہے
پیار کرتا ہے
کوئی بھی جذبہ اسے
اس کی شناخت نہیں لوٹاتا
کانٹے مذاق اڑاتے ہیں
ڈانس کرتے ہیں
کیا انہیں آنکھوں کے
ان سوراخوں میں اتارا جا سکتا ہے
جن میں لاوا بہہ کر آتا ہے
اور ہر اس راستے کو جلا دیتا ہے
جس پر روشنی رینگ کر گزر سکتی ہے
اس شاہراہ تک پہنچنے کے لیے
اگر ہمیں اپنی آنکھوں سے ہاتھ دھونا پڑے
تو کوئی بات نہیں
چلو وہاں چلیں
جہاں لوگ تکلیف دہ چیزیں
پھینک آتے ہیں