رفیق راز کی غزل

    جوئے کم آب سے اک تیز سا جھرنا ہوا میں

    جوئے کم آب سے اک تیز سا جھرنا ہوا میں تیری جانب ہوں رواں شور مچاتا ہوا میں مجھ سے خالی نہیں اب ایک بھی ذرہ ہے یہاں دیکھ یہ تنگ زمیں اور یہ پھیلا ہوا میں دیکھ کر وسعت صحرائے تپاں لرزاں ہوں ساحل دیدۂ نمناک پہ ٹھہرا ہوا میں پا بہ زنجیر ادھر تیز ہوا اور ادھر خاک کے تخت پہ سلطان سا ...

    مزید پڑھیے

    رنگوں سے ٹھنڈے پانی کے چشمے بنا دئے

    رنگوں سے ٹھنڈے پانی کے چشمے بنا دئے کاغذ پہ سایہ دار شجر بھی لگا دئے لاؤں گا اب کہاں سے نظارے کی تاب میں اس نے تو میری آنکھ سے پردے ہٹا دئے باغ حروف و گلشن معنی میں دیکھنا کس نے یہ خامشی کے نئے گل کھلا دئے چھوٹے سے ابر پارے نے آ کے سر فلک اہل نظر کو دن ڈھلے پیغام کیا دئے بس ہم تو ...

    مزید پڑھیے

    دیار جسم سے صحرائے جاں تک

    دیار جسم سے صحرائے جاں تک اڑوں میں خاک سا آخر کہاں تک کچھ ایسا ہم کو کرنا چاہیئے اب اتر آئے زمیں پر آسماں تک بہت کم فاصلہ اب رہ گیا ہے بپھرتی آندھیوں سے بادباں تک میسر آگ ہے گل کی نہ بجلی اندھیرے میں پڑے ہیں آشیاں تک یہ جنگل ہے نہایت ہی پر اسرار قدم رکھتی نہیں اس میں خزاں ...

    مزید پڑھیے

    پیدا کیا ہے اڑتی ہوئی خاک سے مجھے

    پیدا کیا ہے اڑتی ہوئی خاک سے مجھے نسبت یہی ہے صرصر سفاک سے مجھے اب تو اسیر گردش لیل و نہار ہوں مدت ہوئی ہے اترے ہوئے چاک سے مجھے آئے گا کوئی کھولے گا بند قبائے حرف دے گا نجات کاغذی پوشاک سے مجھے دنیا ہے عشوہ ساز تو میں ہوں مکین ذات خطرہ نہیں ہے اس زن بے باک سے مجھے پر پھڑپھڑا ...

    مزید پڑھیے

    ہماری طرح حروف جنوں کے جال میں آ

    ہماری طرح حروف جنوں کے جال میں آ کبھی تو جلوہ گہہ نون جیم دال میں آ ابھی تو گرد زمانے کی اڑ رہی ہے یہاں ابھی نہ مثل صبا کوچۂ خیال میں آ گزر نہ جائے کہیں خامشی میں یہ شب بھی مراقبہ تو ہوا اب ذرا جلال میں آ تجھے بھی آج کوئی روپ بخشتا ہی چلوں تو سنگ ہے تو مرے دست با کمال میں آ یہاں ...

    مزید پڑھیے

    چھیڑا ہے نیا نغمہ حیات ابدی نے

    چھیڑا ہے نیا نغمہ حیات ابدی نے اس بار تبسم نہ کیا سن کے کلی نے لفظوں میں اترنے کا ہنر سیکھ رہا ہوں خطرے میں ہیں الفاظ کے سینوں میں دفینے وہ ہیں کہ بھٹکتے ہیں ابھی پیاس کے مارے ہم ہیں کہ ڈبو آئے سرابوں میں سفینے سنتا ہوں تڑپتے ہوئے پانی کا فقط شور حساس بنایا ہے مجھے تشنہ لبی ...

    مزید پڑھیے

    ابر ہوں اور برسنے کو بھی تیار ہوں میں

    ابر ہوں اور برسنے کو بھی تیار ہوں میں تجھ کو سیراب کروں گا کہ دھواں دھار ہوں میں اب تو کچھ اور ہی خطرات سے دو چار ہوں میں اپنے ہی سر پہ لٹکتی ہوئی تلوار ہوں میں تب میں اک آنکھ تھا جب تو کوئی منظر بھی نہ تھا آج تصویر ہے تو نقش بہ دیوار ہوں میں ہجر کے بعد کے منظر کا کنایہ ہوں ...

    مزید پڑھیے

    تمام شہر تھا جنگل سا اینٹ پتھر کا

    تمام شہر تھا جنگل سا اینٹ پتھر کا غضب وہ دیکھ کے آیا ہوں باد صرصر کا صدائیں چشمے ابلنے کی آ رہی ہیں مجھے کسی نے توڑ دیا کیا سکوت پتھر کا ملا ہے خاک نشینی سے یہ مقام مجھے زمیں ہے تخت فلک تاج ہے مرے سر کا مجھے تو کوئی بھی موسم اڑا نہیں سکتا کہ میں تو رنگ ہوں اس کے ادھورے منظر ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو بس اک عقدہ تھے حل ہونے تک

    ہم تو بس اک عقدہ تھے حل ہونے تک زنجیروں میں بند تھے پاگل ہونے تک عشق اگر ہے دین تو پھر ہو جائیں گے ہم بھی مرتد اس کے مکمل ہونے تک میں پانی تھا سورج گھور رہا تھا مجھے کیا کرتا بے بس تھا بادل ہونے تک اب تو خیر سراب سی خوب چمکتی ہے آنکھ تھی دریا شہر کے جنگل ہونے تک مجھ میں بھی تھی ...

    مزید پڑھیے

    ہوا میں جو یہ ایک نمناکی ہے

    ہوا میں جو یہ ایک نمناکی ہے صدا تیز رفتار دریا کی ہے قدم روک مت پیچھے مڑ کے نہ دیکھ یہ آواز کم بخت دنیا کی ہے مکاں تو مرا لا مکاں ہو گیا شکایت مگر تنگئ جا کی ہے بھڑکتا ہے شعلہ سا رنگ سکوت قلندر کے لہجے میں بیباکی ہے پڑا رہ بدن کے دریچے نہ کھول مری انگلیوں میں ہوس ناکی ہے شجر سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4