رفیق راز کی غزل

    یہ جو ہر سمت ترے نیزے کی شہرت ہے بہت

    یہ جو ہر سمت ترے نیزے کی شہرت ہے بہت سچ تو یہ ہے کہ مرے سر کی بدولت ہے بہت چشمۂ چشم کے پانی سے نہیں ہوگا کچھ خاک صحرا ہے اسے خوں کی ضرورت ہے بہت میں تو اک آنکھ ہوں آواز سے مجھ کو نہ ڈرا یہ ترے جلوۂ صد رنگ کی دہشت ہے بہت بت معنی بھی معانی کے پجاری بھی گئے آ کہ اب معبد الفاظ میں خلوت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4