تمام شہر تھا جنگل سا اینٹ پتھر کا

تمام شہر تھا جنگل سا اینٹ پتھر کا
غضب وہ دیکھ کے آیا ہوں باد صرصر کا


صدائیں چشمے ابلنے کی آ رہی ہیں مجھے
کسی نے توڑ دیا کیا سکوت پتھر کا


ملا ہے خاک نشینی سے یہ مقام مجھے
زمیں ہے تخت فلک تاج ہے مرے سر کا


مجھے تو کوئی بھی موسم اڑا نہیں سکتا
کہ میں تو رنگ ہوں اس کے ادھورے منظر کا


رواں کیا ہے مجھے کن بلندیوں کی طرف
کہ آسمان بھی لگتا ہے سایہ شہ پر کا


میں اپنا گھر تو جلا کے سفر پہ نکلا تھا
خیال دشت میں آیا فقط ترے در کا


سنائی دیتی نہیں ہے اب اپنی آہٹ بھی
رواں ہوا ہے ہر اک سمت شور اندر کا


جب آفتاب سا مجھ پر ہوا تھا روشن تو
مجھے ہے یاد وہ یخ بستہ دن دسمبر کا


ہوائے لمس میں اک آگ بھی تھی پوشیدہ
کہ تابناک ہوا جسم سنگ مرمر کا


زہے نصیب محمد کا نام لیوا ہوں
ہے لاکھ شکر خدائے بزرگ و برتر کا