پیدا کیا ہے اڑتی ہوئی خاک سے مجھے
پیدا کیا ہے اڑتی ہوئی خاک سے مجھے
نسبت یہی ہے صرصر سفاک سے مجھے
اب تو اسیر گردش لیل و نہار ہوں
مدت ہوئی ہے اترے ہوئے چاک سے مجھے
آئے گا کوئی کھولے گا بند قبائے حرف
دے گا نجات کاغذی پوشاک سے مجھے
دنیا ہے عشوہ ساز تو میں ہوں مکین ذات
خطرہ نہیں ہے اس زن بے باک سے مجھے
پر پھڑپھڑا رہا ہوں بصیرت کے دام میں
کوئی چھڑائے قبضۂ ادراک سے مجھے
رہ جائے گی لکیر لہو کی زمین پر
لے جائیے نہ باندھ کے فتراک سے مجھے
مجھ سے زمین خوف زدہ ہے رفیق رازؔ
یہ جانتی ہے ربط ہے افلاک سے مجھے