رئیس وارثی کی غزل

    جو آ سکو تو بتاؤ کہ انتظار کریں

    جو آ سکو تو بتاؤ کہ انتظار کریں وگرنہ اپنے مقدر پہ اعتبار کریں چراغ خانۂ امید ہے ابھی روشن ابھی نہ ترک تعلق کو اختیار کریں ہمارے طول مسافت کا یہ تقاضا ہے شریک حال تجھے اے خیال یار کریں یہ گل رخوں کا ہے شیوہ بہ نام ناز و ادا نگاہ عاشق بسمل کو اشک بار کریں یہ اہل عشق کو زیبا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے

    یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے بچھڑ گئے تھے جو ہم سے وہ خواب میں آئے وہ جس کی راہ میں ہم نے بچھائے غنچہ و گل اسی مکان سے پتھر جواب میں آئے نہ جس کو دست حنائی کا تیرے لمس ملے کہاں سے بوئے وفا اس گلاب میں آئے تمہارے حسن نظر سے ہیں معتبر ہم بھی جو ہم کسی نگہ انتخاب میں آئے اگرچہ ...

    مزید پڑھیے

    میں ایک کانچ کا پیکر وہ شخص پتھر تھا

    میں ایک کانچ کا پیکر وہ شخص پتھر تھا سو پاش پاش تو ہونا مرا مقدر تھا تمام رات سحر کی دعائیں مانگی تھیں کھلی جو آنکھ تو سورج ہمارے سر پر تھا چراغ راہ محبت ہی بن گئے ہوتے تمام عمر کا جلنا اگر مقدر تھا فصیل شہر پہ کتنے چراغ تھے روشن سیاہ رات کا پہرا دلوں کے اندر تھا اگرچہ خانہ ...

    مزید پڑھیے

    جو دیکھو تو وہ چہرہ اجنبی ہے

    جو دیکھو تو وہ چہرہ اجنبی ہے اگر سوچو تو وجہ زندگی ہے مجھے ہے اعتراف جرم الفت مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے مری آنکھیں لٹاتی ہیں جو گوہر مزاج عشق میں دریا دلی ہے مسیحائی نہ تم سے ہو سکے گی ہمارا درد الفت دائمی ہے ترا پیکر خیالوں میں بسا ہے ہر اک سو روشنی ہی روشنی ہے ہمیں راس آ گئی ...

    مزید پڑھیے

    تیرے پیکر سی کوئی مورت بنا لی جائے گی

    تیرے پیکر سی کوئی مورت بنا لی جائے گی دل کے بہلانے کی یہ صورت نکالی جائے گی کون کہہ سکتا تھا یہ قوس قزح کو دیکھ کر ایک ہی آنچل میں یہ رنگت سما لی جائے گی کاغذی پھولوں سے جب مانوس ہوں گی تتلیاں عاشقی کی رسم دنیا سے اٹھا لی جائے گی آئنے میں بال پڑ جائے تو جا سکتا نہیں ریت کی دیوار ...

    مزید پڑھیے

    اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا

    اک لمحۂ وصال تھا واپس نہ آ سکا وہ وقت کی مثال تھا واپس نہ آ سکا ہر اک کو اپنا حال سنانے سے فائدہ میرا جو ہم خیال تھا واپس نہ آ سکا شاید مرے فراق میں گھر سے چلا تھا وہ زخموں سے پائمال تھا واپس نہ آ سکا شاید ہجوم صدمۂ فرقت کے گھاؤ سے وہ اس قدر نڈھال تھا واپس نہ آ سکا شاید میں اس کو ...

    مزید پڑھیے

    خود آگہی کا عجب روگ لگ گیا ہے مجھے

    خود آگہی کا عجب روگ لگ گیا ہے مجھے کہ اپنی ذات پہ دھوکہ ترا ہوا ہے مجھے پکارتی ہے ہواؤں کی نغمگی تجھ کو سکوت جھیل کا آواز دے رہا ہے مجھے عجیب ذوق محبت عطا کیا تو نے وجود سنگ بھی تہذیب آئینہ ہے مجھے میں اپنے نام سے ناآشنا سہی لیکن تمہارے نام سے ہر شخص جانتا ہے مجھے میں اپنے گھر ...

    مزید پڑھیے

    اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے

    اسے بھلا کے بھی یادوں کے سلسلے نہ گئے دل تباہ ترے اس سے رابطے نہ گئے کتاب زیست کے عنواں بدل گئے لیکن نصاب جاں سے کبھی اس کے تذکرے نہ گئے مجھے تو اپنی ہی سادہ دلی نے لوٹا ہے کہ میرے دل سے مروت کے حوصلے نہ گئے میں چاند اور ستاروں کے گیت گاتا رہا مرے ہی گھر سے اندھیروں کے قافلے نہ ...

    مزید پڑھیے

    جبہ کسی کا اور نہ دستار دیکھنا

    جبہ کسی کا اور نہ دستار دیکھنا ہے کون مفلسوں کا طرف دار دیکھنا طرز سخن نہ شوخئ گفتار دیکھنا انسانیت کا کون ہے غم خوار دیکھنا یہ عرصۂ حیات بھی سورج کی زد پہ ہے لمحوں کے بعد سایۂ دیوار دیکھنا ہر زاد یہ حیات کا میری نظر میں ہے میرا سفر ہے صورت پرکار دیکھنا دیوار و در پہ کیسی مسلط ...

    مزید پڑھیے

    اب تو جو منظر شاداب نظر آتا ہے

    اب تو جو منظر شاداب نظر آتا ہے ایسا لگتا ہے کوئی خواب نظر آتا ہے اس حسیں شہر میں ہر سمت ہے لوگوں کا ہجوم اور انساں ہے کہ نایاب نظر آتا ہے کب تلک جنس وفا شہر میں ارزاں ہوگی اب یہ دریا بھی تو پایاب نظر آتا ہے گردش وقت نے ایسے بھی تراشے ہیں سراب دشت بے آب میں گرداب نظر آتا ہے ہونے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2