جو دیکھو تو وہ چہرہ اجنبی ہے
جو دیکھو تو وہ چہرہ اجنبی ہے
اگر سوچو تو وجہ زندگی ہے
مجھے ہے اعتراف جرم الفت
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے
مری آنکھیں لٹاتی ہیں جو گوہر
مزاج عشق میں دریا دلی ہے
مسیحائی نہ تم سے ہو سکے گی
ہمارا درد الفت دائمی ہے
ترا پیکر خیالوں میں بسا ہے
ہر اک سو روشنی ہی روشنی ہے
ہمیں راس آ گئی خوباں پرستی
بڑی دل کش ہماری زندگی ہے
تری چاہت کا ہے یہ بھی کرشمہ
عدو سے بھی ہماری دوستی ہے
مجھے مے کش سمجھتا ہے زمانہ
نگاہوں میں خمار عاشقی ہے
مزہ جب ہے وہ کہہ دے بے خودی میں
قرار جاں رئیسؔ وارثی ہے