اب تو جو منظر شاداب نظر آتا ہے

اب تو جو منظر شاداب نظر آتا ہے
ایسا لگتا ہے کوئی خواب نظر آتا ہے


اس حسیں شہر میں ہر سمت ہے لوگوں کا ہجوم
اور انساں ہے کہ نایاب نظر آتا ہے


کب تلک جنس وفا شہر میں ارزاں ہوگی
اب یہ دریا بھی تو پایاب نظر آتا ہے


گردش وقت نے ایسے بھی تراشے ہیں سراب
دشت بے آب میں گرداب نظر آتا ہے


ہونے لگتا ہے ترے قرب کا احساس مجھے
چودھویں شب کو جو مہتاب نظر آتا ہے


تیری انگشت حنائی کا جسے لمس ملے
وہ نگینہ بڑا خوش آب نظر آتا ہے


اس کی خوشبو سے معطر مرا آنگن ہے رئیسؔ
جاگتی آنکھ سے یہ خواب نظر آتا ہے