جو آ سکو تو بتاؤ کہ انتظار کریں
جو آ سکو تو بتاؤ کہ انتظار کریں
وگرنہ اپنے مقدر پہ اعتبار کریں
چراغ خانۂ امید ہے ابھی روشن
ابھی نہ ترک تعلق کو اختیار کریں
ہمارے طول مسافت کا یہ تقاضا ہے
شریک حال تجھے اے خیال یار کریں
یہ گل رخوں کا ہے شیوہ بہ نام ناز و ادا
نگاہ عاشق بسمل کو اشک بار کریں
یہ اہل عشق کو زیبا نہیں سر بازار
جنوں کے نام پہ داماں کو تار تار کریں
ہمارے آبا و اجداد کا یہ ورثہ ہے
زمین دشت کو سرمایۂ بہار کریں
جواز زندگی ٹھہری ہے جس کی یاد رئیسؔ
اسی سے دل کے تعلق کو استوار کریں