خود آگہی کا عجب روگ لگ گیا ہے مجھے
خود آگہی کا عجب روگ لگ گیا ہے مجھے
کہ اپنی ذات پہ دھوکہ ترا ہوا ہے مجھے
پکارتی ہے ہواؤں کی نغمگی تجھ کو
سکوت جھیل کا آواز دے رہا ہے مجھے
عجیب ذوق محبت عطا کیا تو نے
وجود سنگ بھی تہذیب آئینہ ہے مجھے
میں اپنے نام سے ناآشنا سہی لیکن
تمہارے نام سے ہر شخص جانتا ہے مجھے
میں اپنے گھر کے دئے بھی بھلائے بیٹھا ہوں
ترے خیال نے یہ حوصلہ دیا ہے مجھے
کہاں یہ فرصت کاوش کہ تجھ کو یاد کروں
شعور ذات کا درپیش مرحلہ ہے مجھے
رئیسؔ شعر کی دنیا سے کیا غرض مجھ کو
کسی کی یاد نے شاعر بنا دیا ہے مجھے