یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے

یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے
بچھڑ گئے تھے جو ہم سے وہ خواب میں آئے


وہ جس کی راہ میں ہم نے بچھائے غنچہ و گل
اسی مکان سے پتھر جواب میں آئے


نہ جس کو دست حنائی کا تیرے لمس ملے
کہاں سے بوئے وفا اس گلاب میں آئے


تمہارے حسن نظر سے ہیں معتبر ہم بھی
جو ہم کسی نگہ انتخاب میں آئے


اگرچہ مثل ہے آب رواں کے ریگ سراب
کہاں سے شورش دریا سراب میں آئے


ترے خیال کا پیکر سجا ہے سینے میں
ہم اس طرح تری چشم خوش آب میں آئے


ہوا کے دوش پہ اس نے لکھا ہے نام رئیسؔ
یہ سن کے لوگ بہت پیچ و تاب میں آئے