Qazi Ghulam Mohammad

قاضی غلام محمد

قاضی غلام محمد کی نظم

    مفلسوں کا قومی ترانہ

    یہی مری خواب گاہ عشرت یہی ہے میرا نگار خانہ دھوئیں کی رنگین بدلیوں میں پکا رہی ہے جہاں وہ کھانا یہیں اندھیروں سے مل کے ہم چاندنی کے چھکے چھڑا رہے ہیں یہیں ہمارا صلہ مقرر ہوا ہے ادبار جاودانہ یہیں اسے گیلی لکڑیوں نے خوشی کے آنسو بہاتے دیکھا یہیں اسے راکھ کی تہوں نے بنا دیا غیر ...

    مزید پڑھیے

    او دیس سے آنے والے بتا

    کیا اب بھی وہاں کا ہر شاعر تنقید کا مارا ہے کہ نہیں افلاس کی آنکھ کا تارا ہے وہ راج دلارا ہے کہ نہیں وہ اک گھسیارا ہے کہ نہیں او دیس سے آنے والے بتا کیا اب بھی وہاں پر گنجا سر اسکالر سمجھا جاتا ہے کیا اب بھی وہاں کا ہر ایم اے غالبؔ پر کچھ فرماتا ہے اور جیل کی ظلمت میں کھو کر اقبالؔ ...

    مزید پڑھیے

    کرائے کا مکان

    عجب شے ہے کرائے کا مکاں بھی مکاں بھی ہے یہ ظالم لا مکاں بھی بڑی عجلت میں بنوایا گیا ہے لئی سے چھت کو چپکایا گیا ہے ہے واقع ایک نالی کے کنارے میسر ہیں مجھے کیا کیا نظارے نظیر ان کی جہان خواب میں ہے بہاراں کی شب مہتاب میں ہے نہ کیوں ہو جسم میرا رنج سے چور فقط دو میل ہے یہ شہر سے ...

    مزید پڑھیے

    موت

    واعظ اپنے چہرے پہ نباتات اگا لوں تو چلوں عطر کچھ مل لوں ذرا خود کو سجا لوں تو چلوں مرغ بریانی دہی قورمہ کھا لوں تو چلوں اور پھولا ہوا یہ پیٹ چھپا لوں تو چلوں وزیر اک شبستان تمنا ہے جہاں کچھ بھی نہیں بر نہ آئی ہوئی امیدوں سے ہوں غم آگیں اف یہ پھیلی ہوئی شاداب و خوش آئند زمیں اس پہ ...

    مزید پڑھیے

    آدمی

    جس کی لغت میں آج نہیں ہے کلرک ہے کل آؤ جس کا مسلک دیں ہے کلرک ہے ہر دم جو یوں ہی چیں بہ جبیں ہے کلرک ہے روٹین کا جو مرد امیں ہے کلرک ہے پر حسن اتفاق سے یہ بھی ہے آدمی چہرے پہ ان کے دبکی ہوئی ایک رات ہے ان کے لئے یہ حاصل کل کائنات ہے اس سے زیادہ لطف کی یہ واردات ہے اے دل مگر یہ کان میں ...

    مزید پڑھیے

    آج کی رات

    دیکھنا جلوۂ جاناں کا اثر آج کی رات پھول ہی پھول ہیں تا حد نظر آج کی رات رائیگاں جا نہ سکا آنکھ سے اس کا بہنا رنگ لایا ہے مرا خون جگر آج کی رات دامن شوق کو تھامے ہوئے ہیں شرم و حیا دل دھڑکتا ہے بہ انداز دگر آج کی رات حسن و تقدیس کی دلچسپ حکایت پڑھ کر دھن رہا ہے دل حیرت زدہ سر آج کی ...

    مزید پڑھیے