موت

واعظ
اپنے چہرے پہ نباتات اگا لوں تو چلوں
عطر کچھ مل لوں ذرا خود کو سجا لوں تو چلوں
مرغ بریانی دہی قورمہ کھا لوں تو چلوں
اور پھولا ہوا یہ پیٹ چھپا لوں تو چلوں


وزیر
اک شبستان تمنا ہے جہاں کچھ بھی نہیں
بر نہ آئی ہوئی امیدوں سے ہوں غم آگیں
اف یہ پھیلی ہوئی شاداب و خوش آئند زمیں
اس پہ دو چار محل اور بنا لوں تو چلوں


شوہر
وہ کہاں مر گئی آئی تھی ابھی اور چل دی
گھر میں سب ختم ہے بازار سے لاؤں ہلدی
کسی خیراتی شفا خانے میں جا کر جلدی
اپنے ننھے کو میں انڈور کرا لوں تو چلوں


کلرک
رات بھر جاگ کے رف ڈرافٹ بنا لوں جا کر
اپنے روٹھے ہوئے صاحب کو منا لوں جا کر
اور رخصت وہیں منظور کرا لوں جا کر
پھر ڈبل روٹی کے دو ٹوسٹ بھی کھا لوں تو چلوں


مسٹر
ڈرائی کلینر سے وہ پتلون جو آئی لانا
جو ڈبل ریٹ پہ آئی ہے دھلائی لانا
پن لگا کے وہ جو ٹائی ہے پرائی لانا
میں ذرا اپنی اٹیچی کو سنبھالوں تو چلوں