مفلسوں کا قومی ترانہ

یہی مری خواب گاہ عشرت یہی ہے میرا نگار خانہ
دھوئیں کی رنگین بدلیوں میں پکا رہی ہے جہاں وہ کھانا
یہیں اندھیروں سے مل کے ہم چاندنی کے چھکے چھڑا رہے ہیں
یہیں ہمارا صلہ مقرر ہوا ہے ادبار جاودانہ
یہیں اسے گیلی لکڑیوں نے خوشی کے آنسو بہاتے دیکھا
یہیں اسے راکھ کی تہوں نے بنا دیا غیر شاعرانہ
یہیں مری سخت جان غیرت یہ بارہا سن چکی ہے اب تک
ابے تری مفلسی کے چرچے سنے تھے میں نے تو غائبانہ
یہیں وہ جان وفا مری آرزو کی رنگینیوں کی خاطر
چھڑک کے بالوں میں عطر اندیشہ کرتی رہتی ہے ان میں شانہ
اگر نحوست کی جان ہے وہ تو بندہ ایمان مفلسی ہے
اسی لئے ایک دوسرے سے ہمیں محبت ہے والہانہ
الٰہی تیری عنایتوں کا یہ ایک ادنیٰ سا ہے کرشمہ
ہمارے افلاس بے کراں کا جو آج ہے معترف زمانہ
وہ اس کا جاڑے کی سرد راتوں میں مجھ سے ایندھن کی بات کرنا
کہ جیسے یہ چیز ماورائی ہو یا الف لیلوی فسانہ
طویل فاقوں کے بعد دونوں کا پیچ پی کر وہ جھوم اٹھنا
وہ اس کی شرمیلی سی نگاہیں وہ میرے جذبات عاشقانہ
خوشی میں ساری خدائی میں ہاف ڈے منایا گیا تھا اس دن
وجود میں آ گیا تھا جس دن ہماری الفت کا شاخسانہ