کرائے کا مکان

عجب شے ہے کرائے کا مکاں بھی
مکاں بھی ہے یہ ظالم لا مکاں بھی
بڑی عجلت میں بنوایا گیا ہے
لئی سے چھت کو چپکایا گیا ہے
ہے واقع ایک نالی کے کنارے
میسر ہیں مجھے کیا کیا نظارے
نظیر ان کی جہان خواب میں ہے
بہاراں کی شب مہتاب میں ہے
نہ کیوں ہو جسم میرا رنج سے چور
فقط دو میل ہے یہ شہر سے دور
یہاں آب و ہوا کا مسخ چہرہ
ملا ہرگز نہ موقع دیکھنے کا
ہم آپس میں بہت گھل مل گئے ہیں
مجھے جیبوں میں چمگادڑ ملے ہیں
ہیں بام و در پہ یہ غارت گر ہوش
بہار بستر و نو روز آغوش
ہماری اب یہ حالت ہو گئی ہے
اندھیروں سے محبت ہو گئی ہے
یہاں دن کو بھی الو بولتے ہیں
مرے کانوں میں امرس گھولتے ہیں
جو دنیا میں ہیں یہ کیڑے مکوڑے
یہیں پل کر جواں ہوتے ہیں سارے
غبار آلود یوں میری جبیں ہے
کہیں سیڑھی کہیں کچھ بھی نہیں ہے
اسی سیڑھی کا ہے وہ واقعہ بھی
لڑھک کر مر گئی جو ساس میری
یہاں چوہوں کے بل اتنے بڑے ہیں
کئی ثابت قدم ان میں گرے ہیں
مجھے بھی دور کی اک روز سوجھی
کسی بل کو میں کھودوں جی میں آئی
جو کھودا چشم حیراں نے یہ دیکھا
کہ اک لیڈر نما موٹا سا چوہا
دبائے منہ میں اک خاصہ بتاشا
مرے موزے پہن کر جا رہا تھا
وہیں اک چوہیا آ نکلی کہیں سے
ٹپکتا ناز تھا اس کی جبیں سے
بسا تھا عطر میں ہر ریشہ اس کا
پرے تھا عرش سے اندیشہ اس کا
بہت بن ٹھن کے نکلی تھی بچاری
میاں چوہے نے فوراً آنکھ ماری
نگاہ غیر سے شرما گئی وہ
میاں چوہے سے پھر ٹکرا گئی وہ
ملے یوں طالب و مطلوب باہم
مجازی عشق کا لہرایا پرچم
غرض چوہے قیامت ڈھا رہے ہیں
در و دیوار پر منڈلا رہے ہیں
میں لایا تھا کہیں سے ایک بلی
پکڑ کر لے گئے چوہے اسے بھی