آدمی
جس کی لغت میں آج نہیں ہے کلرک ہے
کل آؤ جس کا مسلک دیں ہے کلرک ہے
ہر دم جو یوں ہی چیں بہ جبیں ہے کلرک ہے
روٹین کا جو مرد امیں ہے کلرک ہے
پر حسن اتفاق سے یہ بھی ہے آدمی
چہرے پہ ان کے دبکی ہوئی ایک رات ہے
ان کے لئے یہ حاصل کل کائنات ہے
اس سے زیادہ لطف کی یہ واردات ہے
اے دل مگر یہ کان میں کہنے کی بات ہے
داڑھی بڑھا رہے ہیں سو ہیں وہ بھی آدمی
شہر نجوم ان کی ہی تفریح گاہ ہے
مہتاب کی پری پہ بھی ان کی نگاہ ہے
مفلس ہیں اور چاند ستاروں کی چاہ ہے
کس درجہ خستہ حال ہیں حالت گواہ ہے
شاعر ہیں ان سے ملیے کہ ہیں یہ بھی آدمی
ان کو نہ لفٹ شعر کی دیوی نے دی کبھی
ملنے گئے جو یہ تو وہ پردے میں جا چھپی
اللہ رے ان کی دست درازی کی برہمی
ساڑی ادب کی سات جگہ سے ہے پھاڑ دی
نقاد ان کو کہتے ہیں یہ بھی ہیں آدمی