آج کی رات
دیکھنا جلوۂ جاناں کا اثر آج کی رات
پھول ہی پھول ہیں تا حد نظر آج کی رات
رائیگاں جا نہ سکا آنکھ سے اس کا بہنا
رنگ لایا ہے مرا خون جگر آج کی رات
دامن شوق کو تھامے ہوئے ہیں شرم و حیا
دل دھڑکتا ہے بہ انداز دگر آج کی رات
حسن و تقدیس کی دلچسپ حکایت پڑھ کر
دھن رہا ہے دل حیرت زدہ سر آج کی رات
چاند اک مطلع انوار درخشاں ہی سہی
ایک تصویر ہے حیرت کی مگر آج کی رات
جلوۂ حسن کے اخراج کا عالم دیکھو
میری نظروں میں ہیں رقصاں سے شرر آج کی رات
جذبۂ شرم نے چھڑکاؤ کیا شبنم کا
رخ گلنار ہے اک شعلۂ تر آج کی رات
مئے الفت کا چھلکتا ہوا پیمانہ ہے
اس کی شرمیلی سی ترچھی سی نظر آج کی رات
یہ دعائے دل معصوم الوہی ہو قبول
تا قیامت رہے محروم سحر آج کی رات