قمر صدیقی کی غزل

    زہر کے تیر مرے چاروں طرف کھینچتا ہے

    زہر کے تیر مرے چاروں طرف کھینچتا ہے کیا عجب شخص ہے اپنوں پہ ہدف کھینچتا ہے پھر وہی دل میں اداسی کے امڈتے بادل پھر وہی سلسلۂ خاک و خذف کھینچتا ہے پھر وہی قہر وہی فتنۂ دجال کے دن پھر وہی قصۂ اصحاب کہف کھینچتا ہے کون سی سوئی ہوئی پیاس کا رشتہ جاگا آج کیوں مجھ کو یہ صحرائے نجف ...

    مزید پڑھیے

    یہ مرتبہ کوشش سے میسر نہیں ہوتا

    یہ مرتبہ کوشش سے میسر نہیں ہوتا ہر فاتح ایام سکندر نہیں ہوتا ہر روز نئی جنگ ہے ہر روز نئی جہد کب اپنے مقابل کوئی لشکر نہیں ہوتا بے سوچے ہوئے کام تو ہو جاتے ہیں سارے جو سوچتے ہیں ہم وہی اکثر نہیں ہوتا ہر پل وہی وحشت ہے وہی رقص ستم ناک کس لمحہ یہاں فتنۂ محشر نہیں ہوتا آ لیتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    وہ اک وجود زمیں پر بھی آسماں کی طرح

    وہ اک وجود زمیں پر بھی آسماں کی طرح مرے حدود سے باہر ہے لا مکاں کی طرح وہ اک خیال کوئی بحر بیکراں جیسے مری نظر کسی بوسیدہ بادباں کی طرح ازل سے سر پہ کھڑی دوپہر کا منظر ہے سو اب یہ دھوپ بھی لگتی ہے سائباں کی طرح میں حرف حرف اسے ہی سمیٹنا چاہوں مگر وہ پھیلتا جاتا ہے داستاں کی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی ہے گل کبھی شمشیر سا ہے

    کبھی ہے گل کبھی شمشیر سا ہے وہ گویا وادئ کشمیر سا ہے روابط سب حصار ہجر میں ہیں تعلق ٹوٹتی زنجیر سا ہے برا سا خواب دیکھا تھا جو شب میں یہ دن اس خواب کی تعبیر سا ہے ہیں گردش میں لہو ساعت مناظر زمانہ آنکھ میں تصویر سا ہے قمرؔ گرداب تک آؤ تو جانو جو مژدہ لہروں پہ تحریر سا ہے

    مزید پڑھیے

    مثال خواب ہمیشہ کسی سفر میں رہے

    مثال خواب ہمیشہ کسی سفر میں رہے ہم اپنی نیند میں بھی اس کی رہ گزر میں رہے کسی کی یاد کے بادل برسنے والے تھے بہت خراب تھا موسم سو آج گھر میں رہے تمام عمر اسی جسم سے شکایت تھی تمام عمر اسی جسم کے کھنڈر میں رہے متاع درد کو آخر کہاں کہاں رکھتے سو میرے گنج گراں مایۂ ہنر میں رہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    دشمن وشمن نیزہ ویزا خنجر ونجر کیا

    دشمن وشمن نیزہ ویزا خنجر ونجر کیا عشق کے آگے مات ہے سب کی لشکر وشکر کیا ایک ترے ہی جلوے سے روشن ہیں یہ آنکھیں ساعت واعت لمحے وحے منظر ونظر کیا تیرے روپ کے آگے پھیکے چاند ستارے بھی بالی والی کنگن ونگن زیور ویور کیا تیرا نام ہی انتم سر ہے دھرتی تا آکاش سادھو وادھو پنڈت ونڈنت ...

    مزید پڑھیے

    پہلے تو اک خواب تھا خاکستر و خاور کے بیچ

    پہلے تو اک خواب تھا خاکستر و خاور کے بیچ اب اندھیری شب ہے حائل اس کے میرے گھر کے بیچ حادثے جیسے ہیں سب دیکھے ہوئے سمجھے ہوئے کوئی حیرانی نہیں اب آنکھ اور منظر کے بیچ سب سپاہی اپنی اپنی ذات میں مصروف تھے شاہزادہ اب کے تنہا ہی لڑا لشکر کے بیچ عصر حاضر کے سوا بھی کچھ زمانے اور ...

    مزید پڑھیے

    یہ کھیت سبزہ شجر رہ گزار سناٹا

    یہ کھیت سبزہ شجر رہ گزار سناٹا اگا ہے دور تلک بے شمار سناٹا ہمارے خواب کوئی اور دیکھ لیتا ہے ہماری آنکھ خلا انتظار سناٹا وہ کشتۂ رہ صوت و صدا ہوا شاید وہ ایک لفظ تھا جس کا حصار سناٹا ہے لفظ لفظ میں بجھتے مکالموں کا دھواں سکوت عشق ہے یا بے قرار سناٹا کبھی تو چھیڑ کوئی ساز کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہماری نیند میں کوئی سراب خواب بھی نہیں

    ہماری نیند میں کوئی سراب خواب بھی نہیں یہ کیسا ریگزار ہے فریب آب بھی نہیں تھے کیسے کیسے لوگ میرے خیمۂ خیال میں گئے دنوں کی خیر ہو کہ اب طناب بھی نہیں یہ حادثہ کہ برف باریوں کی زد پہ آ گئے مگر یہ واقعہ لہو میں کوئی تاب بھی نہیں نہ کچھ گلہ نہ التفات ہجر کی سیاہ رات فرامشی کا دور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3