زہر کے تیر مرے چاروں طرف کھینچتا ہے
زہر کے تیر مرے چاروں طرف کھینچتا ہے کیا عجب شخص ہے اپنوں پہ ہدف کھینچتا ہے پھر وہی دل میں اداسی کے امڈتے بادل پھر وہی سلسلۂ خاک و خذف کھینچتا ہے پھر وہی قہر وہی فتنۂ دجال کے دن پھر وہی قصۂ اصحاب کہف کھینچتا ہے کون سی سوئی ہوئی پیاس کا رشتہ جاگا آج کیوں مجھ کو یہ صحرائے نجف ...