یہ مرتبہ کوشش سے میسر نہیں ہوتا
یہ مرتبہ کوشش سے میسر نہیں ہوتا
ہر فاتح ایام سکندر نہیں ہوتا
ہر روز نئی جنگ ہے ہر روز نئی جہد
کب اپنے مقابل کوئی لشکر نہیں ہوتا
بے سوچے ہوئے کام تو ہو جاتے ہیں سارے
جو سوچتے ہیں ہم وہی اکثر نہیں ہوتا
ہر پل وہی وحشت ہے وہی رقص ستم ناک
کس لمحہ یہاں فتنۂ محشر نہیں ہوتا
آ لیتے ہیں جذبات کو چپکے سے کسی پل
ان حادثوں کا وقت مقرر نہیں ہوتا
آوارہ ہیں اس آنکھ سے اس آنکھ تلک خواب
جیسے کہ مسافر کا کوئی گھر نہیں ہوتا