مثال خواب ہمیشہ کسی سفر میں رہے
مثال خواب ہمیشہ کسی سفر میں رہے
ہم اپنی نیند میں بھی اس کی رہ گزر میں رہے
کسی کی یاد کے بادل برسنے والے تھے
بہت خراب تھا موسم سو آج گھر میں رہے
تمام عمر اسی جسم سے شکایت تھی
تمام عمر اسی جسم کے کھنڈر میں رہے
متاع درد کو آخر کہاں کہاں رکھتے
سو میرے گنج گراں مایۂ ہنر میں رہے
یہ زندگی ہے قمرؔ یا کہ جنگلوں کا سفر
ہر ایک لمحہ یہاں راہ پر خطر میں رہے