وہ اک وجود زمیں پر بھی آسماں کی طرح

وہ اک وجود زمیں پر بھی آسماں کی طرح
مرے حدود سے باہر ہے لا مکاں کی طرح


وہ اک خیال کوئی بحر بیکراں جیسے
مری نظر کسی بوسیدہ بادباں کی طرح


ازل سے سر پہ کھڑی دوپہر کا منظر ہے
سو اب یہ دھوپ بھی لگتی ہے سائباں کی طرح


میں حرف حرف اسے ہی سمیٹنا چاہوں
مگر وہ پھیلتا جاتا ہے داستاں کی طرح


مرے بدن میں کوئی شے یگوں یگوں سے قمرؔ
بکھر رہی ہے کسی ریگ‌ رائیگاں کی طرح