پہلے تو اک خواب تھا خاکستر و خاور کے بیچ
پہلے تو اک خواب تھا خاکستر و خاور کے بیچ
اب اندھیری شب ہے حائل اس کے میرے گھر کے بیچ
حادثے جیسے ہیں سب دیکھے ہوئے سمجھے ہوئے
کوئی حیرانی نہیں اب آنکھ اور منظر کے بیچ
سب سپاہی اپنی اپنی ذات میں مصروف تھے
شاہزادہ اب کے تنہا ہی لڑا لشکر کے بیچ
عصر حاضر کے سوا بھی کچھ زمانے اور ہیں
کچھ مناظر اور بھی ہیں آسماں منظر کے بیچ
ایک یہ تاریخ ہے پڑھتے ہیں جس کو آج ہم
اک الگ تاریخ بھی ہے رام کے بابر کے بیچ
لو قمرؔ صاحب زمانہ چال اپنی چل گیا
آپ اتنا ہی چلے بس گھر کے اور دفتر کے بیچ