قمر صدیقی کی غزل

    ہماری نیند کوئی سو گیا ہے کیا

    ہماری نیند کوئی سو گیا ہے کیا جو تھا خوابوں کا زیور کھو گیا ہے کیا سبھی چہروں پہ ہے کیوں بد حواسی اب سبھی کا جیسے یاں کچھ کھو گیا ہے کیا کوئی فریاد اب سنتا نہیں وہ بھی کہیں پر چیف جسٹس ہو گیا ہے کیا یہ کیوں تالاب دریا اور سمندر ہیں یہاں پر کوئی آ کر رو گیا ہے کیا قمرؔ کا آئنے ...

    مزید پڑھیے

    کارزار دہر میں کیا نصرت و غم دیکھنا

    کارزار دہر میں کیا نصرت و غم دیکھنا ایک بس اپنا علم اور اپنا پرچم دیکھنا اس طلسم عصر حاضر سے جب آنکھیں جل اٹھیں دور جلتا اک چراغ اسم اعظم دیکھنا منتظر ہیں راستوں پر حادثے چلتے ہوئے کھول رکھنا اپنی آنکھیں اور کم کم دیکھنا چاند تارے اور جگنو اور مرا رنگ ہنر یعنی اس کو یاد کرنا ...

    مزید پڑھیے

    میں اپنے پاؤں بڑھاؤں مگر کہاں آگے

    میں اپنے پاؤں بڑھاؤں مگر کہاں آگے زمین ختم ہوئی اب ہے آسماں آگے ہر ایک موڑ پہ میں پوچھتا ہوں اس کا پتہ ہر ایک شخص یہ کہتا ہے بس وہاں آگے بچھڑتے جاتے ہیں احباب خواب کی صورت گزرتا جاتا ہے یادوں کا کارواں آگے بس اگلے موڑ تلک ہی یہ صاف منظر ہے پھر اس کے بعد وہی بے کراں دھواں آگے

    مزید پڑھیے

    سوتے سے وہ جاگ پڑا ہے

    سوتے سے وہ جاگ پڑا ہے خوابوں کا نقصان ہوا ہے ہم بھی گھر میں آ بیٹھے ہیں رستہ بھی سنسان پڑا ہے بچے پب جی کھیل رہے ہیں بوڑھا برگد دیکھ رہا ہے پارک کی سونی بینچوں پر شام کا سایہ پھیل رہا ہے تنہائی کی گہری دھوپ میں تیری یاد کا پھول کھلا ہے اندر آ کر دیکھ کبھی تو یاں پورا اک شہر بسا ...

    مزید پڑھیے

    پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر دیکھے گا کون

    پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر دیکھے گا کون اے گمان خوش نظر اب کے ادھر دیکھے گا کون چشم پر نم سوز دل اپنی جگہ لیکن یہاں موسم سر سبز میں رقص شرر دیکھے گا کون اس صدی سے اس صدی تک رشتے ناطے دوستی پیچھے کیا کیا رہ گیا ہے لوٹ کر دیکھے گا کون درہم و دینار ہیں انعام ہجرت کا مگر گھر سے ...

    مزید پڑھیے

    خواب نہیں ہے سناٹا ہے لیکن ہے تعبیر بہت

    خواب نہیں ہے سناٹا ہے لیکن ہے تعبیر بہت سچی باتیں کم کم ہیں اور جھوٹ کی ہے تشہیر بہت کیا کیا چہرے ہیں آنکھوں میں شکلیں کیا کیا ذہن میں ہیں یادیں گویا البم ہیں اور البم میں تصویر بہت قصہ ہے بس دو پل کا یہ ملنے اور بچھڑنے کا کرنے والے عشق کی یوں تو کرتے ہیں تفسیر بہت ہم تو صاحب ...

    مزید پڑھیے

    پیش منظر میں ہے کچھ اور کچھ پس منظر میں ہے

    پیش منظر میں ہے کچھ اور کچھ پس منظر میں ہے کچھ حقیقت کچھ فسانہ رام اور بابر میں ہے غم کے مارو مختصر ہے عرصۂ تیرہ شبی اور اس کے بعد سب کچھ پنجۂ داور میں ہے خواب سارے ہو گئے ہیں نیند سے اب ماورا پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے حال ماضی اور مستقبل سبھی تو اس کے ہیں ہستی اپنی اس ...

    مزید پڑھیے

    وہ بات بات پہ کہتا ہے بے وفا مجھ کو

    وہ بات بات پہ کہتا ہے بے وفا مجھ کو سکھا دیا انہیں باتوں نے بولنا مجھ کو میں اپنی ذات میں گم ہو گیا تھا سب سے دور تری نظر سے ملا ہے مرا پتہ مجھ کو حقیقتوں سے نظر کب تلک چراؤں گا کہ بار بار دکھاتی ہیں آئنہ مجھ کو وہ چاہتا تھا کہ میں اس کی اک جھلک دیکھوں میں سوچتا تھا کہیں سے وہ دے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے دست طلب کو پکارتا ہوں میں

    کسی کے دست طلب کو پکارتا ہوں میں اٹھاؤ ہاتھ مجھے مانگ لو دعا ہوں میں مرے ازل اور ابد میں نہیں ہے فصل کوئی ابھی شروع ابھی ختم ہو گیا ہوں میں بسی ہے مجھ میں یگوں سے عجیب ویرانی بدن سے روح تلک بے کراں خلا ہوں میں نہ کوئی آگ ہے مجھ میں نہ روشنی نہ دھواں کسی کے خواب میں جلتا ہوا دیا ...

    مزید پڑھیے

    پھر وہی خانۂ برباد ہمارے لیے ہے

    پھر وہی خانۂ برباد ہمارے لیے ہے شہر غرناطہ و بغداد ہمارے لیے ہے جھیلنا ہے ہمیں پھر کرب فراموشی کا پھر وہی سلسلۂ یاد ہمارے لیے ہے نیند کے شہر طلسمات مبارک ہوں تمہیں جاگتے رہنے کی افتاد ہمارے لیے ہے غم ہیں آشوب خودی میں ہمیں ورنہ اک شہر خوں سے تر شور سے آباد ہمارے لیے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3