سوکھے پتے اڑا رہا ہوگا

سوکھے پتے اڑا رہا ہوگا
وہ خزاؤں سے کھیلتا ہوگا


نیند کے نام سے جو ڈرتا ہے
سانپ خوابوں میں دیکھتا ہوگا


برف پگھلے گی جب پہاڑوں پر
دھوپ میں شہر جل گیا ہوگا


پتھروں سے ہے واسطہ جس کو
آئنہ چھپ کے دیکھتا ہوگا


مخلصی اس کو کھا چکی ہوگی
وہ تو رشتوں میں بٹ چکا ہوگا


رنگ سازوں کے شہر کا بیتابؔ
نقشہ ہر پل بدل رہا ہوگا