سورج ہے نیا چاند نیا تارے نئے ہیں

سورج ہے نیا چاند نیا تارے نئے ہیں
یہ کیا پس دنیا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں


موسم تو کئی آئے مگر خواب ہمارے
سوکھے ہوئے پتوں کی طرح گرتے رہے ہیں


ہر لمحہ کوئی اینٹ اکھڑ جاتی ہے جس کی
ہم لوگ اسی دیوار کے سائے میں کھڑے ہیں


خود اپنے ہی سائے نے ہمیں نیچا دکھایا
ہم سوچتے تھے ہم سبھی سایوں سے بڑے ہیں


وہ ایک بھنور سنتے ہیں دل کش ہے غضب کا
ہیں کتنے سفینے جو وہاں ڈوب چکے ہیں


رنگین دوکانوں میں سجے ہیں جو کھلونے
اندر سے اگر دیکھو تو سب ٹوٹے ہوئے ہیں


بیتابؔ نمایاں نہیں کچھ ایسے مگر ہاں
ان لمبی قطاروں میں کہیں ہم بھی کھڑے ہیں